پی ایس پی،ایم کیوایم ،قائداورعوام

سندھ کی سیاست میں ایک سال قبل جب شہری سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کی گرفتاریاں , ماورائے عدالت قتل اور اِسکی سیاسی اور فلاحی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی تھی اُسی دوران ایم کیوایم کے سابق اراکین کی جانب سے سنسنی خیز واپسی ہوئی اور کراچی آپریشن میں ایم کیوایم کے کارکنان کی گرفتاریوں کو جائز قرار دینے اور تمام تر برائیوں کا زمہ دار ایم کیوایم قائد کو ٹہرانے کی کوشش کی گئی , تو یوں کہا جارہا تھا کہ سندھ میں اب سیاسی تبدیلی ہونے کو ہے لوگ اب خوف سے آزاد ہیں کوئی زبردستی ایم کیوایم کے جلسوں میں نہیں جائے گا اور نہ ہی ووٹ دےگا وغیرہ وغیرہ …………

مصطفی کمال جوکہ ایم کیوایم کے سابق رکن ہیں اور اہم زمہ داریوں پر رہ چکے ہیں اور قائد ایم کیوایم کی جانب سے ہی 2005 میں ناظم کے لیے منتخب کیے گئے تھے دو ہزار بارہ میں سینیٹر بناگئے اور پھر اچانک دوہزار تیرہ میں ملک سے باہر چلے گئے تھے , 3 سال بعد جب مصطفی کمال واپس پاکستان آئے تو انکے لہجے میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی گئی 3 مارچ 2016 کو تین سال بعد وطن واپسی پر اُسی انسان پر لعن طعن کرنے لگے جس نے دنیا میں انھیں مُتعارِف کروایا, اس لعن طعن پر مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کو معاشرے کے ہر حلقہ کی جانب سے حیرت کی نگاہ سے دیکھا گیا کہ کوئی اپنے محسن کے لیے اس طرح سے زہر کیسے اگل سکتا ہے , مگر مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کی زبان سے صاف دکھائی دے رہاتھا کہ یہ اُنکی زبان نہیں ہے کیونکہ بالکل اِسی طرح 1992 میں بھی ایم کیوایم کے سابق اراکین کو ایم کیوایم کے قائد کے سامنے لاکر کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ دونوں بُری طرح ناکام ہوئے تھے کافی عرصہ کوشش کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا , جیل اور عدالتوں سے گزر کر ایک نے اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کیا اور واپس اپنی جماعت سے جاملا تھا اور دوسرا آج اپنی ہی شناخت کرانے میں ناکام ہے

مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کی جانب سے 23 مارچ 2016 کو اپنی جماعت کے نام پاک سرزمین پارٹی کا اعلان کیا گیا اور اِس کے بعد جس نے بھی اُنھیں جوائن کیا سب ایک ہی لب و لہجہ استعمال کرتے نظر آئے , مصطفی کمال کے گروپ میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ایم کیوایم کے کارکنان اور زمہ داران کی ہے جس پر ایم کیوایم کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ انکے جو کارکنان مصطفی کمال کے ساتھ ہیں اُنھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ مصطفی کمال کو جوائن کرو ورنہ جیل جاؤ یا پھر غائب کردیے جاؤگے.

دوسری طرف مصطفی کمال کی جانب سے زبردستی مہاجروں کو جرائم پیشہ ثابت کرنے کی سازشیں کی جاتی رہیں , مصطفی کمال کی جانب سے بار بار مطالبہ کیا جاتا رہاہے کہ جس طرح سے دہشت گردوں اور بلوچستان کے علیحدگی پسند لوگوں کے لیے ریاست کی جانب سے پیکج کا اعلان کیا گیا ہے ویسے ہی مہاجروں کے لیے بھی کیا جائے , جوکہ مضحکہ خیز بات ہے مہاجروں کو دہشت گردوں اور دیگر شدت پسندوں سے ملانا یہ کسی مہاجر کے الفاظ ہوہی نہیں سکتے , ہاں اس طرح کی باتیں کوئی پاکستان دشمن یا مہاجر دشمن ضرور کرسکتا ہے, جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے , کہ آپ ایک پرامن مہذب قوم کو جرائم پیشہ ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں……

مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کی واپسی کے بعد اُنکی جانب سے کی جانے والی باتوں کے نتیجے میں دوسری جانب کراچی آپریشن کے نام پر تیزی سے ایم کیوایم کے کارکنان کو گرفتار کیا جانے لگا , جیلوں میں گرفتار ایم کیوایم کارکنان کے حوالے سے خبریں آنے لگیں کہ ایم کیوایم کے گرفتار کارکنان کو دباؤ کا سامنا ہے کہ اگر انھیں رہا ہونا ہے تو وہ پی ایس پی میں شامل ہوں ورنہ ماردیے جائیں گے ,یا پھر لاپتہ کردیے جائیں گے جس پر ایم کیوایم کے ارکان اسمبلی نے بھی آواز اٹھائی اور احتجاج بھی کیے گئے , عدالت بھی گئے مگر اس کا نہ تو کوئی نتیجہ نکلا اور نہ ہی گرفتاریاں , گمشدگی , اور ماورائے عدالت قتل تھمے ,

ایم کیوایم قائد کی جانب سے 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر تقریر نے ریاست کو ایم کیوایم کے خلاف کھل کر کاروائی کرنے کا وہ موقع دیا جس کو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور ایسا ہی ہوا , مرکزی دفتر سے لیکر انکے یونٹ سطح تک تمام دفاتر مکمل سیل کردیے گئے ,

فاروق ستار کی جانب سے ایم کیوایم کے ارکان اسمبلی پر مشتمل گروپ کی جانب سے 23 اگست کو پریس کانفرنس کی گئی جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اگر مہاجروں کے خلاف کاروائیوں کی وجہ الطاف حسین ہیں تو اب ہم نے ان سے علیحدگی کرلی ہے ہمارے خلاف کاروائیاں بند کی جائیں, جناب الطاف حسین نے تمام پاکستانیوں سے نہ صرف اپنے بیان پر معافی مانگی بلکہ فاروق ستار کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کو بھی کھلے دل سے تسلیم کیا کہ اگر ایسا کرنے سے مہاجروں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو بسمہ اللہ کیجیے , مگر بات الطاف حسین کے علیحدہ ہونے سے بھی نہیں بنی اور 24 اگست 2016 کو انکی دو مرتبہ معافی مانگنے , لاتعلقی کرنے کے باوجود گرفتاریوں , ماورائے عدالت کا سلسلہ جاری رہا ,

دوسری جانب فاروق ستار نے نہ صرف پارٹی کے آئین میں تبدیلی کرکے قائد سے قائد کا حق ہی چھیننے کی کوشش کی , بلکہ قائد کے خلاف اسمبلی میں آرٹیکل چھ کا مطالبہ کرکے انتہا کا اقدام بھی کربیٹھے جس کے بعد پاکستان میں موجود کارکنان نے جب اس عمل پر لندن سے رجوع کیا توایم کیوایم قائد نے وقت ضائع کی بغیر ہی ڈاکٹر فاروق ستار کے فیصلوں کو مسترد کردیا اور چند راہنماوں کو تو پارٹی سے ہی فارغ کردیا , اور ڈاکٹر فاروق ستار لاتعلقی کے دلدل میں اس طرح دھنس گئے کہ اس سے باہر نکلنا وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا جارہاتھا کیونکہ ایم کیوایم کے قائد کے تواتر سے آنے والے آڈیو وڈیو پیغامات سے فاروق ستار کے مقاصد آہستہ آہستہ آشکار ہوتے جارہے تھے ایسے میں فاروق ستار گروپ کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ یہ پارٹی الطاف حسین کی امانت ہے جوکہ ہم اُسی حالت میں انھیں واپسی کردے گے جیسے انکی جماعت تھی , جب اِس سے بھی کوئی مطمعین نہیں ہوا تو ڈرانے دھمکانے کا راستہ آپنایا گیا,

الطاف حسین سے علیحدگی پر ایم کیوایم کا نام استعمال کرنے پر قائد ایم کیوایم کی جانب سے سخت غصہ کا اظہار کیا گیا اور اراکین اسمبلی سے استعفی دینے کا کہا ، اورکارکنان پر بھی واضح کردیا کہ ایم ایم کیوایم وہی ہے جس کے ساتھ الطاف حسین ہے اور جہاں الطاف حسین بطور قائد نہیں وہ ایم کیوایم ہو ہی نہیں سکتی ……

متحدہ کے بانی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے سیاست کرنا مشکل کردیا گیا , سینئر کارکنان ڈاکٹر فاروق ستار گروپ کی لاتعلقی کے بعد الطاف حسین صاحب کی جانب سے نئی رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے اکثریت ارکان کراچی سے تھے اُنھیں پریس کلب کے باہر سے اکتوبر 2016 میں حراست میں لے لیا گیا تا حال حراست میں ہیں جس میں 71 سالہ بزرگ پروفیسر حسن ظفر عارف بھی شامل ہیں.

الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد مصطفی کمال اور فاروق ستار دونوں نے الطاف مخالف سیاست کا کھل کر آغاز کردیا ہے , ماضی میں جو کام پہلے تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں سے کراچی میں لیا جاتا رہا اب دو گروپس سے وہی کام لیا جانے لگا , یوں کہہ لیجیے کہ دونوں گروپس کے درمیان مقابلہ ہے کہ کون کس حد تک اپنے سابق قائد کے خلاف سخت بات کرے گا , جہاں مصطفی کمال نے جناب الطاف حسین کے خلاف لفظی محاذ کھولا وہیں ڈاکٹر فاروق ستار نے خاموشی اور میٹھی چُھری کے ساتھ سخت اقدامات کیے ، فاروق ستار مسلسل جناب الطاف حسین کی جماعت کا نام استعمال کررہے ہیں ، مگر پھر بھی عوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں

کیونکہ 22 اگست 2016 سے لیکر 2017 تک 8 ماہ کے دوران کچھ ایسے عملی مظاہرے دیکھنے میں آئے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ مائنس الطاف یا لاتعلقی کرنے والے اقدامات مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں, الطاف حسین کا نام ,نعرے , تصویر پر جہاں پابندی تھی ایسے حالات میں بھی شہری سندھ کے مختلف حصوں میں 17 ستمبر 2016 کو لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے بانی متحدہ کی سالگرہ منائی اور محبت کا اظہار کیا, الطاف حسین صاحب کی نامزد کردہ رابطہ کمیٹی کے پابند سلاسل ہوجانے اور کئی متحدہ رہنماؤں کی روپوشی یا گرفتاری کے باوجود عوام کا یوم شہدائ پر بانی متحدہ کی آواز پر 9 دسمبر 2016 کو شہر کراچی اور حیدرآباد میں بڑی تعداد میں باہر آنا , اور پھر نجی پروگرامز میں کسی بھی طریقے سے بانی متحدہ کے لیے عوام کی جانب سے محبت اور عقیدت بھرے لفظوں کا استعمال ہونا, اور فاروق ستار اور مصطفی کمال کے جلسوں میں عوام کا ماضی کی طرح رخ نہ کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آج بھی بانی متحدہ کے لیے لوگوں میں اُسی طرح ہمدردیاں محبت اعتماد حمایت باقی ہے جیسے 22 اگست 2016 سے قبل تھی

متحدہ قومی موومنٹ سے علیحدہ ہونے والے گروپس کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وہ شہری سندھ کے نمائندہ ہیں مگر اس کے باوجود عوام میں اپنی پرانی حیثیت حاصل کرنے میں مسلسل ناکام رہے ہیں جو ماضی میں عزت و مرتبہ انھیں ایم کیوایم الطاف حسین کے ساتھ رہ کر ملتی تھی مصطفی کمال اور فاروق ستار مسلسل اپنی پرانی طرز سیاست کو مسترد کررہے ہیں اور اِسی کے تحت متعدد جلسے بھی کرچکے ہیں مگر وہ نظم و ضبط اور وہ عوام کا سمندر اب تک دیکھنے میں نہیں آیا جس طرح سے ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں ۔

جہاں ایک طرف دو الطاف حسین مخالف گروپ ہیں تو دوسری جانب ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو آج بھی بانی متحدہ کے ساتھ کھڑے ہیں جس کا مظاہرہ ہمیں 9 دسمبر کو دیکھنے کو ملا ، جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے آہستہ آہستہ مصطفی کمال اور فاروق ستار گروپ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور جو لوگ اُنکے ساتھ کھڑے تھے وہ خاموشی سے بیٹھنے میں ہی بہتری سمجھ رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص بنا کسی منشور ، فکروفلسفہ اور لیڈرشپ کے زیادہ دیر تک گراونڈپر ِ ٹک نہیں سکتا

کیا شہر کراچی میں خوف یا ڈر سے کسی کی وفاداری تبدیل کرواکر ہم بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ؟ کیا ہمیں سلیکشن اور ریجیکشن عوام پر نہیں چھوڑدینا چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ کس کو منتخب اور کس کو مسترد کرنا ہے یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ وہ مائنس ون فارمولا کے ساتھ ہیں یا لاتعلقی فارمولا کے ساتھ ہیں یا پھر دونوں کو ہی مسترد کرتے ہیں اور یہ سب ایک ہی مرحلے میں ہی ظاہر ہوسکتا ہے کہ عوام کیا چاہتی ہے وہ ہے 2018 کے عام انتخابات جس میں کچھ وقت ہی باقی ہے , تمام حلقوں کو ایک جیسا موقع دے کر دیکھ لیا جانا چاہیے کہ عوام کس کے ساتھ ہے , جہاں عوام کی تائید و حمایت ہو وہی ہیرو باقی سب زیرو

متحدہ قومی موومنٹ ہو یا کوئی اور سیاسی و جمہوری جماعت ہو کسی پر بھی غیر اعلانیہ پابندی نہیں لگنی چاہیے ,اور اگر کسی پر پابندی ہی لگانی ہے تو اسکی وجوہات عوام کے سامنے رکھ کر پابندی لگادیجیے ,کسی بھی سیاسی جماعت کا موقف جانے بنا ہی اُسکے خلاف فیصلے کیے جاتے رہے تو یہ جمہوریت نہیں آمریت سے بھی بدتر اقدام ہوگا

شہر کراچی کی بات کریں یا پھر شہری سندھ کی یہاں کی عوام نے 1964 میں بھی کھل کر ووٹ کے زریعے اپنی ووٹ کی طاقت سے کسی کو منتخب اور کسی کو مسترد کیا تھا اور اُمید ہے آنے والے آئندہ الیکشن میں بھی شہری سندھ کی عوام کسی خوف یا دباؤ سے ہٹ کر ہی اپنے نمائندے منتخب کرے گی ,
کہا جارہا ہے کہ 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری کے بعد ملک کی آبادی کے صحیح اعدادوشمار کا پتہ پڑے گا جس سے ملک کی سیاست اور بڑے شہروں پر بھی کافی اثر پڑے گا , اب یہ کس شہر پر کیسا اثر پڑے گا یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ مردم شماری پر کچھ جماعتوں کے تحفظات بھی سامنے آرہے ہیں اور یہ عمل بھی فی الوقت جاری ہے

شہر کراچی میں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلدیاتی سیٹ اپ تو موجود ہے جو سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہے مگر اس کے باوجود شہر میں بظاہر ایک سیاسی خلا سا دکھائی دیتا ہے جِسے پُر کرنے کے لیے پیپلزپارٹی, پاکستان مسلم لیگ نواز کی اُس طرح سے کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی جس طرح سے کسی بھی وفاقی سیاسی جماعت کی ہونا چاہیے لیکن سالوں قبل شہر کراچی میں عوام کی جانب سے مسترد کی جانے والی جماعت اسلامی عوامی مسائل کو لیکر سڑکوں پر آرہی ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں کچھ ہاتھ آجائے

یہاں دیکھنا یہ ہے کہ شہری سندھ میں گزشتہ 30 سالوں سے اکثریت میں منتخب ہونے والی متحدہ قومی موومنٹ آج 2017 میں مشکل حالات سے دوچار ہے اس کے باوجود آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ بینک قائم رکھ پائے گی یا نہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے