بنگلا دیش پھانسیاں :چند حقائق جو شائد آپکو معلوم نہ ہوں

[pullquote]بین الاقوامی عدالت برائے جنگی جرائم بنگلا دیش[/pullquote]

چند حقائق جو شائد آپکو معلوم نہ ہوں

orangeflowerbutterflydivider

1. سنہ 71واقعات کے تقریبا چالیس سال بعد سنہ 2009 میں عدالت کا قیام حسینہ واجد حکومت کی طرف سے عمل میں آیا –

2. سنہ 70 کی دھائی میں بھی اسی قسم کی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں 192 پاکستانی فوجیوں کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا تاہم ان نامزد افراد میں سے کوئی ایک بھی سولین نہ تھا اور کسی کو بھی سزا نہ دی گئی.

3-اس سے پہلے حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب پاکستان، ھندوستان اور بنگلادیش کی حکومتوں کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت مبینہ جنگی مجرموں کے لیئے عام معافی کا اعلان کر چکے تھے.

4– سنہ 2010 میں موجودہ عدالت کے سربراہ اور بلجیئم میں موجود ایک بنگلادیشی کے مابین 27 گھنٹے طویل سکائپ کالز دی اکانمسٹ میگزین سامنے لایا جس میں عدالت کو فیصلہ لکھوایا جارہا تھا. مزکورہ خبر کے بعد چیف جج کو مستعفی ہونا پڑا.

5– یہ عدالت سپیشل ایکٹ کے تحت کام کرتی ہے, لہزا اس عدالت کو بنگلا دیشی قانون شھادت اور کریمنل ایکٹ سے بھی مستثنی قرار دیا گیا ہے.

6– چناچہ یہ واحد عدالت ہے جہاں سنی سنائی(hearsay) گواہی کو بھی قانونی شھادت تسلیم کیا جاتا ہے.

7– اسکے باوجود عدالتی کاروائی کے دوران بھی مسلسل قانون میں من مانی ترامیم کی جاتی رہیں.

8– اولا ملزمان کو فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہی نہی تھا لیکن عبدالقادر ملا کیس میں جب اسی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا دی تو حکومت نے قانون میں ترمیم کر کے خود اپنی ہی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور عمر قید کو موت کی سزا میں تبدیل کرنے کی درخواست جسے سپریم کورٹ نے فورا قبول کرلیا.

9– ملزمان کے گواہوں کا اغوا اور حکومتی گواھان پر جرح پر قدغن لگائی گئی.

10– آزاد اور غیر جانبدار عدالتی کاروائی کے مسلمہ بنیادی انسانی حق کو یکسر پامال کیا گیا.

11-مزکورہ ملزمان پر اس سے پہلے کبھی بھی کسی بھی قسم کا الزام یا مقدمہ نہیں قائم ہوا.

12– اس نام نہاد بین الاقوامی عدالت مین, ججز, تفتیش کار اور وکلا سمیت تمام تر عملہ بنگلادیشی ہے جبکہ انٹرنیشنل آبزرور اور میڈیا کو عدالتی کاروائی دیکھنے کی اجازت نہی.

13-ابھی تک کیئے جانے والے تمام فیصلوں میں سے کسی ایک میں بھی ملزمان میں سے کسی ایک کا بھی بلاواسطہ یا بلواسطہ ذاتی عمل (actus rea) ثابت نہی کیا جاسکا.’

14-اس عدالت میں تمام تر سزائیں موثر بامضی قانون(Retrospective) کے تحت دی جارہی ہیں.

15– ہیومن رائٹس واچ, انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس, یو این کمیشن آف ہیومن رایٹس, ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل بار ایسوسیشن نے بھی عدالتی طریقہ کار پر تنقید کی اور اسے نا انصافی قرار دیا.

عبداللہ فیضی ملائیشیا کے ملایا یونی ورسٹی کولالمپور میں شعبہ قانون میں پی ایچ ڈی کر رہےہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے