چھبّا انقلابی!

میں نے اور چھبّے انقلابی نے ایک دوسرے کو پہلی مرتبہ سڑک پر دھرے بارش کے پانی سے بھرے ہوئے ڈرم میں دیکھا، ہماری عمریں اس وقت پانچ چھ برس کے لگ بھگ تھیں، ہم شڑاپ شڑاپ کی آوازیں نکالتے ڈرم کے پانی میں کھیل رہے تھے۔ اس کے بعد ہماری ساری عمر ایک دوسرے کے ساتھ گزری، بس فرق یہ تھا کہ میری سوچیں معاشرتی ڈرم ہی میں محدود ہو کر رہ گئیں، جبکہ چھبّا انقلابی بن گیا، چھبّے کا اصل نام سرور تھا مگر بچپن میں اسے چھبّا اور بڑھتی عمر کے ساتھ اسے چھبّا انقلابی کہا جانے لگا۔

اسے انقلابی کا عوامی خطاب اس لیے ملا کہ وہ ہر آمرانہ حکومت خواہ وہ جمہوریت میں ملفوف ہو، کی کھل کر مخالفت کرتا تھا۔ اس نے بہت کم عمر میں کالم بھی لکھنا شروع کر دیا تھا، چنانچہ اس کا پہلا کالم صدر جنرل اسکندر مرزا کے خلاف ایک غیر معروف اخبار میں شائع ہوا اور اس کے بعد جنرل یحییٰ خان تک اس کا قلم ان حکمرانوں کو علامتی برچھیاں چبھوتا رہا۔ ان حکمرانوں کی حکمرانی کے نتیجے میں پاکستان کے دو ٹکڑے تو ہونا ہی تھا، سو ہم اپنے مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو بھی صدر ایوب کی زیر صدارت پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پر اپنے پر پرزے نکال چکے تھے۔ بنگلا دیش تحریک کے دوران انہوں نے یو این او میں نہایت پُرجوش اور تاریخی تقریر کے دوران یو این او کی قرارداد پھاڑ کر اس کے پرزے ہوا میں اڑا دیے جس میں مسئلے کا حل پیش کیا گیا تھا، جس پر پورے مغربی پاکستان میں بھٹو کی بلّے بلّے ہوگئی، مگر چھبّے انقلابی نے لکھا کہ اب ملک ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

چھبّے انقلابی نے ایوب خان کے دور میں معاہدۂ تاشقند کے ’’راز‘‘ سے پردہ ہٹانے اور یو این او کی قرارداد پھاڑنے کے بعد سے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی، ایوب خان کو تخت خالی کرنا پڑا اور ایوب خان کے جانشین یحییٰ خان کے کرائے گئے الیکشن میں مجیب الرحمٰن کی پارٹی نے مشرقی پاکستان کی ساری نشستیں جیت لیں اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، یہ لمبی کہانی ہے۔ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش بن گیا، ہمیں اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھانا پڑی۔ یحییٰ خان کو نظر بند کر دیا گیا۔ بھٹو وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے، ان کا نعرہ اسلامی سوشلزم تھا، مگر چھبّا انقلابی پھر بھی ان کے خلاف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی جمہوری حکومت میں فاشزم کسی صورت قبول نہیں، چنانچہ وہ ان کے خلاف بھی لکھتا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں بھی اس کے قلم کی چبھن قائم و دائم رہی۔ مگر جب بھٹو کو قید اور بعد میں پھانسی دے دی گئی تو میں نے اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا، اس کا کہنا تھا کہ ایک آمر اور ایک ناجائز حکمران کو ایک منتخب عوامی رہنما کو عدالتی پھانسی دینے کا کوئی حق نہیں تھا، عوام خود اس کی حکومت گراتے اور سزا دیتے تو یہ گوارا کیا جا سکتا تھا!

میں اس کہانی کو مزید مختصر کر رہا ہوں، ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو فضا میں ہلاک کر دیا گیا، پھر بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں ان کے بعد نواز شریف وزیراعظم بنے، پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور خود ملک کے صدر بن گئے۔ نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا، بینظیر جلاوطنی ختم کرکے ملک میں واپس آئیں تو شہید کر دی گئیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی، ان تمام ادوار میں چھبّا انقلابی ان حکمرانوں کو رگیدتا رہا، خصوصاً پرویز مشرف کے اس نے بہت لتےّ لیے۔

پرویز مشرف کی آٹھ برس حکمرانی کے بعد نواز شریف وطن واپس آئے تو بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئے مگر جب پرویز مشرف پر نواز شریف نے غداری کا مقدمہ بنایا تو چھبّے انقلابی نے اس کی بھرپور مخالفت کی، حالانکہ اس دوران چھبّے کے دل میں نواز شریف کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے سے پرویز مشرف کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر نواز شریف کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عدالت نے پرویز مشرف کو طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی اور وہ نہ صرف یہ کہ ابھی تک وہیں ہیں بلکہ لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے مشرف کے خلاف دیے گئے فیصلے جس میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی اور ایک جج نے ان کی لاش کو تین دن تک لٹکائے رکھنے کا حکم دیا تھا، کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس دوران نواز شریف جو اپنے عہدے کی مدت پوری کر چکے تھے، ان کے خاندان، عزیز و اقربا اور ان کے ساتھیوں پر مختلف النوع جرائم کے مقدمے دائر کیے گئے، بیگم کلثوم نواز لندن میں بستر مرگ پر تھیں جب نواز شریف اور مریم نواز جیل جانے کیلئے وطن واپس آئے۔ نواز شریف شدید بیمار تھے چنانچہ ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر انہیں بیرونِ ملک علاج کیلئے بھیجنے کی سفارش کی اور وہ تادم تحریر لندن ہی میں ہیں۔

ان دنوں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے آرمی ایکٹ کی حمایت پر جماعت کے حامی بھی نواز شریف پر تنقید کر رہے ہیں، نیز لندن کے ریستوران میں کھانے کی تصویر کی اشاعت پر بھی تنقید ہو رہی ہے، ہرحکومت میں کیڑے نکالنے والا چھبّا انقلابی اس ساری تنقید کو بے معنی اور سطحی سوچ کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔

میں نے چھبّے سے کہا ’’یار تم کیسے انقلابی ہو کہ مسلم لیگ (ن) کے حالیہ ترمیمی ایکٹ کے حق میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے ہونے والی تنقید سطحی اور بے بنیاد ہے؟‘‘ بولا ’’پوری بات سن لو۔ جسے تم سب بلنڈر کہہ رہے ہو، اگر یہ بلنڈر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نے تنظیم سازی کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور شاید پاکستان کی کسی بھی بڑی جماعت سے یہ ’’حرکت‘‘ سرزد نہیں ہوئی۔ سیاسی جماعتیں ہمارے ہاں لیڈروں کی کرشماتی شخصیت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ بینظیر پاکستان آئیں تو لاکھوں لوگ امڈ آئے۔ میں خود بھی ان کے استقبال کے لیے ریگل چوک پر کھڑا تھا۔

نواز شریف آئے تو ان کے پیچھے بھی لاکھوں کا مجمع تھا۔ عمران خان کی بھی یہی صورت حال نظر آئی۔ یہ دیکھ کر ہم غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ وقت پڑنے پر پارٹی کارکنوں کا ہجوم سب کام چھوڑ کر بھاگا چلا آئے گا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں نچلی سطح پر منظم کیا جائے، مقامی حکومتوں کو اختیارات دیے جائیں، میں یہ سب کچھ لکھتا رہا ہوں، سیاسی جماعتیں جب تک بی جے پی، کانگریس یا کمیونسٹ پارٹی کی طرح منظم نہیں ہوں گی، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ خواجہ آصف نے کاشف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل درست فیصلہ ہے اور خود میں بھی یہی سمجھتا ہوں، مگر موصوف نے یہ کہہ کر مخلص ہمدردوں کی تضحیک کی کہ یہ لوگ ایک ٹویٹ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہایت مشکل وقت میں جمہوریت کا جھنڈا تھامے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو طعنہ دینا مناسب تھا اور کیا اس موقع پر ان کے بارے میں ’’ایک ٹویٹ کرکے کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں‘‘ کی سطور میں ان کی خوش خوراکی کا حوالہ ضروری تھا، خود خواجہ صاحب بھی خوش خوراک ہیں اور ٹویٹ کرنے کے بعد کریلے گوشت کھانے چلے جاتے ہیں!‘‘

میں نے چھبّے انقلابی کی یہ گفتگو سنی، ابھی وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر میں نے درمیان میں ٹوک دیا ’’یہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر تمہارے پاس اس فیصلے کے حق میں دلیل کیا ہے؟‘‘ چھبّے نے کہا ’’میں جانتا ہوں ووٹروں کی ایک تعداد کو اپنی پارٹی کے اس فیصلے سے مایوسی ہوئی، مگر یہ نہ بھولیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز اور دیگر عزیز و اقارب کے علاوہ شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، ان کے برادر سلمان رفیق، حنیف عباسی، مفتاح اسماعیل، جاوید لطیف، احسن اقبال اور پارٹی کے دیگر قائدین نے اسی دوران بدترین سختیاں اور تشدد برداشت کیے ہیں۔ علاوہ ازیں پرویز رشید، عظمیٰ بخاری اور عطاء اللہ تارڑ کی باری بھی آنے والی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ چھ مہینے تک ننگے فرش پر سوتے رہے ہیں، شدید علیل نواز شریف جن کی زندگی کو ڈاکٹر خطرے میں بتاتے ہیں، نے کتنا ہی عرصہ قید تنہائی میں گزارا ہے۔ مسلم لیگ کی یہ روایت نہیں رہی ہے، یہ جماعت ایسے مواقع پر گوشۂ عافیت میں چلی جاتی رہی ہے۔ کیا ایسی قربانیوں کی زیادہ مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا نہیں، مگر چھبّے تم بتائو کہ کیا بلند بانگ نعروں کے بعد جماعت کو یہ سمجھوتا کرنا چاہئے تھا؟‘‘ چھبّے نے کہا ’’میں تو پہلے ان سے شہباز شریف اور ان کے کچھ دوسرے ساتھیوں کے اس موقف کا حامی ہوں کہ نواز شریف کو سمجھوتا کر کے اپنے وہ تمام ترقیاتی منصوبے مکمل کرنا چاہئیں جو بس مکمل ہونے ہی والے تھے۔ ایک بات اور! منزل تک کوئی ایک شخص یا ایک جماعت نہیں پہنچایا کرتی، ہمارے جیسے ملکوں ہی میں نہیں، یورپ اور امریکہ کے موجودہ ترقی یافتہ ممالک اپنی منزل تک صدیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پہنچے ہیں۔ یہ اولمپک مشعل کی طرح کا سلسلہ ہے، مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک جاری رہتی ہے اور فائنل رائونڈ پورا ہوتا ہے۔ بھٹو کی جلائی ہوئی مشعل نواز شریف نے تھامی، اب اس مشعل کا بیانیہ سفر در سفر کرے گا اور ہم اپنی منزل تک پہنچ کر دم لیں گے‘‘ یہ کہتے ہوئے چھبّے انقلابی نے یہ شعر بھی پڑھے؎

ہری ہے شاخ تمنا ابھی، جلی تو نہیں

جگر کی آگ دبی ہے مگر بجھی تو نہیں

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی

کٹی ہے بر سرِ میداں، مگر جھکی تو نہیں

اس پر میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ’’بس اب تنی بھی بڑ نہ ہانکو‘‘

اہم خبریںادارتی صفحہاسپورٹسیورپ سےدنیا بھر سےملک بھر سےشہر قائد/ شہر کی آوازدل لگیبزنستعلیم صحت خواتینسندھ بھر سےمراسلات
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے کے دوسرے کالم میں پروف کی خاصی غلطیاں رہ گئی تھیں، امید ہے قارئین نے خود ہی ٹھیک کر لی ہوں گی۔ بہرحال اب آگے چلتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی اس جدوجہد میں وہ قربانیاں بھی دی ہیں جو واجب بھی نہ تھیں۔ حالیہ تاریخ میں کسی سیاست دان نے عمر کے اس حصے میں اس جوانمردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ نہیں کیا جتنا میاں صاحب نے کیا۔ اپنی زندگی دائو پر لگا دی۔

باقی رہی یہ بات کہ ترمیمی ایکٹ کی منظوری میں حکومت کا ساتھ کیوں دیا، تو قصہ یہ ہے کہ یہ قانون کہتا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن وزیراعظم کا اختیار ہوگا۔ واضح رہے پہلے بھی یہ اختیار وزیراعظم ہی کے پاس تھا مگر سپریم کورٹ نے کہا کہ اس پر قانون سازی کی جائے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قانون کو بہتر بنانے کیلئے تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھتیں اور حکومتی ڈرافٹ میں کوئی ایسی شق ڈالنے کا مطالبہ کرتیں جس سے یہ نہ لگتا کہ ان جماعتوں نے فقط قانون پر انگوٹھا لگایا ہے۔

مگر یہ آئیڈیل بات تھی، مگر ابھی ہم آئیڈیل معاشرے میں نہیں رہ رہے بلکہ اس کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب لاہور کے سروسز اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو اس وقت اسپتال کے باہر لاہور کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے ڈالے نہیں بیٹھے تھے بلکہ میڈیا کی گاڑیوں سے پتا چلتا تھا کہ میاں نواز شریف اسپتال میں موجود ہیں۔

یہ وہی ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں جو جماعت کی تنظیم سازی کی وجہ سے نیچے سے اوپر نہیں آئے بلکہ انہیں چھاتہ بردار ہی کہا جا سکتا ہے۔

باقی رہی یہ بات جو بہت زیادہ اچھالی گئی کہ یہ (نواز شریف) کیسے بیمار ہیں، جو ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں، تو میاں صاحب کی بیماری کی شدت سے انکار کی یہ بہت بودی دلیل ہے۔

جو شخص شدید علالت کے باوجود نیب اور عدالتوں کی پیشیاں بھگتنے کیلئے لمبی راہداریوں پر پیدل چل کر منصف کے سامنے پیش ہوتا ہو، اس کے علاوہ بھی اسے کئی مقامات پر جانا پڑتا ہو، تو کیا ایسا شخص جو مسلسل گھر پر بیٹھا رہے اور آسمان کی شکل بھی نہ تک سکا ہو، وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہو جائے گا اور اس کی بیماری مزید شدت اختیار نہیں کرے گی؟

آج سے پندرہ برس قبل میرا کینسر کا آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے دائیں جانب کا گردہ بھی نکال باہر کیا۔ یہ میجر آپریشن تھا، ابھی ٹانکے کچے تھے مگر میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے اسپتال سے فرار ہو گیا بلکہ آپریشن کے اگلے ہی دن ایک تیماردار کا سہارا لیکر باہر برآمدے میں سگریٹ پینے کیلئے کمرے سے نکل آیا تھا۔

کیا دیکھنے والوں نے یہ کہا ہوگا کہ یہ شخص کینسر کا مریض نہیں ہے، اس کا آپریشن ہی نہیں ہوا۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ ’’غالب کے طرفداروں‘‘ نے اسے میری جوانمردی قرار دیا۔

البتہ عزیزم حسن نواز کا یہ بیان کہ میاں صاحب ہوا خوری کیلئے گھر سے نکلے تھے، مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ہوا خوری نہیں ’’خوری‘‘ کیلئے گھر سے نکلے تھے۔

بہرحال باتیں بنانے والے باتیں ضرور بنائیں گے، یہ لوگ تو بیگم کلثوم نواز کی تصویر بنانے کیلئے ان کے اسپتال کے کمرے میں گھس گئے تھے جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں تاکہ ان کی بیماری کو بہانہ قرار دے سکیں۔

ہمارے ہاں سیاست بہت بے رحم ہو چکی ہے، سو یہ باتیں تو آئندہ بھی ہوں گی، البتہ اس بزرجمہر کا پتا ضرور لگانا چاہئے جس نے مسلسل گھر میں بند رہنے کے بعد ایک دن ہوٹل میں کھانا کھانے کی تصویر بنائی تھی اور اخباروں کو جاری بھی کر دی۔

تاہم میرے خیال میں یہ کارنامہ کسی عام آدمی کا نہیں کسی خاص طبقے کا ہے اور اسے دنیا کے خاص الخاص طبقوں میں بہترین کارکردگی کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مجھے آخر میں صرف یہ کہنا ہے کہ اچھا اور برا‘ دونوں وقت گزر جاتے ہیں تاہم ان کی مٹھاس یا تلخی باقی رہ جاتی ہے۔

ہم سب کو چاہئے خواہ ہمارا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو کہ کسی کو ایسا زخم نہ لگائیں جو مندمل ہونے کے بعد بھی اس کا درد جاگ اٹھے اور یوں اسے زخم لگانے والا وہ شخص ایک بار پھر یاد آ جائے جس نے یا جنہوں نے یہ زخم لگایا تھا۔

بھلے وقتوں میں انسان اپنوں اور غیروں کی بہت سی تلخ یادیں بھول جاتا ہے لیکن جب کوئی برے وقت سے نبرد آزما ہو، اس وقت اسے پھول بھی مارا جائے تو کانٹے کی چبھن محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سب اپنوں اور غیروں کی خطائیں معاف کرے اور ان پر اپنے رحم کا سایہ قائم رکھے۔ (ختم شد)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے