کالم کی موت

میری دعا ہے کہ میرا یہ کالم بہت جلد مر جائے،یہ اپنا مفہوم کھودے اورحالات اس کے بر عکس ہوجائیں لیکن مجھے لگتاہے کہ یہ ابھی کئی برس تک جئے گا۔ یہ کالم حُسن و دلکشی کے بارے میں ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حسن و دلکشی انسان کی کمزوری ہے،انسان ہر لطیف و حسین شئے کو پسند کرتاہے،خدا نے بھی جب انسان سے کلام کرنا چاہاتوانسان کی اس کی پسند کو مدنظر رکھا،اس نےخوبصورت الفاظ کو حسین پیرائے میں دلکش بیان کے ساتھ اس طرح سے پرویا کہ بڑے بڑے فصحا بھی اس کے کلام کا جواب نہیں لاسکے۔

دشمن بھی راتوں میں چھپ چھپ کر اس کے کلام کی شیرینی سے لطف اٹھاتے تھے اور شیاطین اس کی نزاکتِ الفاظ کو جادو کہہ کر فرار کرتے تھے۔

خدا نے الفاظ کے ساتھ نعوذباللہ بازی نہیں کی بلکہ الفاظ کو وہ معانی اور مفاہیم عطا کئے ہیں کہ ایک طرف تو طبیعت بشر کی نفاست پسندی اس حسنِ انتخاب سے محظوظ ہوئی اور دوسری طرف انسانی علم اور تہذیب و تمدن نے ارتقاء کیا۔یہ قرآن کا ہی دلکش اندازِ بیان اور اسلوبِ رواں تھا کہ جو مدتوں تک مسلمان دانش مندوں کی تحریر و تقریر پر حاوی رہا۔

معقولات و منقولات کے جو سوتے قلب اسلام سے پھوٹے ان کی تراوت عالم بشریت کی بریدہ شاخوں میں آج بھی لمس کی جاسکتی ہے اور ان سے لبریز جام رومی،سینا،فارابی،خوارزمی اور الکندی کی صورت میں آج بھی مغرب کے علمی میکدوں میں چھلک رہے ہیں۔

انسانیت کے بے نطق معاشرے کو قرآن اور اسلامی مفکرین نےہی آکر نطق بخشا،یہ وہ زمانہ تھا جب قلم خریدنے کی کوشش کی جاتی تھی،چونکہ قلم وزن رکھتے تھے، دانشمندوں کےسروں کی قیمتیں لگتی تھیں چونکہ سر قیمتی ہوتے تھے،تہہ خانوں کے زندانوں میں محبوس بدن فانوس بن کر جلتے رہتے تھےچونکہ تخیل کی چاپ کوآہنی حصاروں سے اسیر کرنامحال تھا، قلم کی سریرسے ایوان بالا کے کنگرے جگمگاتے تھے،طوفان بلا میں یہی تو اک نائو تھی ،جس کے بادبان منزل کا تعین کرتے تھے، کبھی کبھی کاخِ شاہی کے ستونوں کوقلم دیمک بن کر چاٹ بھی جاتے تھے،اس کی خاموشی لشکروں کے غلغلے کو نگل جاتی تھی اور اس کی چھنکار ظِلّ الہی کی زنجیرعدالت پر بھی بھاری تھی۔

ہمارے ہاں بر صغیر میں تو چشم فلک نے کئی مرتبہ یہ مناظر بھی دیکھے جب کسی بادشاہ نے کسی ہیرے میں جڑ کر قلم کو اپنے تاجِ شاہی میں سجانا چاہاتوصاحبِ قلم نےطریقِ گدائی پر چلنا شروع کردیا،اپنے سماجی سفر میں تاج کو اپنے تمام تر رعب و دبدبے کے باوجود تاراج ہوجانے کا خطرہ لاحق رہا لیکن قلم کو شاہ ولی اللہ جیسے سرپرست ملے جنہوں نے الفاظ کے برتاو میں خیانت نہیں کی اور اس عظیم مصلح نے شاہی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لایا،محمد حسین آزاد جیسے شمس العما ء ملے جنہوں نے اندازِ بیان میں سستی،کمی اور لغزشوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی،حالی جیسے امین ملے جنہوں نے مفاہیم کی امانت کو الفاظ کی بھرپور صداقت کے ساتھ اداکیا،میر انیس اور میرزا دبیر جیسے مشّاق ملے جنہوں نے انسان کی قوت ناطقہ کو طائر تخیل کے ہمراہ پرواز کارنے کا حوصلہ بخشا لیکن اب زمانہ اس دور میں داخل ہوچکا ہے کہ تجرید فکر کا گلا گھٹ گیاہے۔

اب جولوگ الفاظ کی علامتی توانائی کو درک نہیں کرسکے تھے وہ اسے خیالی کہہ کر بھاگ نکلتے ہیں اور جہاں پر قلمکار کو تجرید فکر کے بنیادی اصولوں کی ہوا نہ لگی ہو وہاں قلمکار تولید فکر کے نام پر گھسی پٹی عبارتوں،بے رنگ اندازِ بیان،پھیکی اصطلاحات اور غلط ملط جملوں کا انبار تو لگاسکتاہے لیکن کسی تمدن کی تعمیر نو اور علمی مباحث کی تعبیرِ جدید کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔

جہاں پر مفروضے کو تجربے میں ڈھالنے کے لئے فنّی اہتمام نہ ہو اور مفروضے اور تجربے کے ملاپ سے مشاہدے کی تولید کے لئے بنیادی عناصر کی خبر ہی نہ ہو اور پھر تولید شدہ مشاہدے کو نظریاتی قوانین سے گزارے بغیر اور تجرید فکر کے اصولوں پر چانچے بغیر پیش کیاجاتاہو وہ ہاں پر پھر کہنے کو سوائے کیچڑ اچھالنے کے کیا رہ جاتاہے۔

تحریر کے ساتھ ساتھ آج کل ہمارے ہاں فن تنقید کابھی یہی حال ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے لئے تنفس ضروری ہے اسی طرح انسانی افکار کی بالیدگی کے لئے تنقید بھی اہم ہےلیکن علمی تنقید کے بھی کچھ بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔جس معاشرے میں بیان [تحریر] اورتنقید ی جائزہ دونوں بے لگام ہوجائیں وہاں پرعوام کو دشنام دینا کسی طور بھی روا نہیں۔

آج ہمیں اس تاریکی کو محسوس کرنا چاہیے کہ نور کے نام پر ظلمت کا کاروبار ہورہاہے۔اس جدید اور ماڈرن تاریکی کے عہد میں یہ صاحبان علم و شعور کا کام ہے کہ وہ اس قوم کی آنکھ بن کر رہنمائی کریں،دماغ بن کر اس کی فکر کریں اور عصاء بن کر اسے سہارا دیں۔

جس معاشرے میں صاحبان علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفید ہو جائیں وہاں پرعلمی نگارشات اور نظریاتی تولید کی جگہ الزام و دشنام اورغیبت و حسد کو مل جاتی ہے اور جہاں پر علمی و نظریاتی تولیدات کا حسن ماند پڑجائے وہاں ان کی طلب بھی کم ہوجاتی ہے اور جہاں پر ان کی طلب کم ہوجائے وہاں پر بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم ہو کررہتا ہے۔

جب تک ہمارے ہاں صاحبانِ علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفیدہیں تب تک ہمارے معاشرے میں بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم بن کر جینے پر مجبور ہے۔لہذا میری دعا ہے کہ خدا کرے حالات بدل جائیں یعنی ہمارے دانشمندوں کی ہمتیں بلند،زبانیں فصیح،قلم گویا،افکار نو،مجالس علمی اور محافل مفید ہوجائیں اور اگر ایسا ہوجائے تو یہ کالم خود بخود مر جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے