کتابوں کے آنسو نہیں ہوتے

کہتے ہیں کہ آنکھیں تب تک بے نور ہوتی ہیں جب تک کہ وہ سپنے نہ دیکھیں ، جب تک دل کی آنکھیں کھلی ہوئی نہ ہوں اور جب تک ہم دماغ کے بند کواڑوں کو کھولنے کی کوشش نہ کریں نہ کچھ اچھا دیکھ سکیں ، نہ کچھ اچھا کر سکیں یا کم ازکم اچھا اور مثبت سوچ ہی نہ سکیں ۔

خیر ہم بھی آج کس بحث میں پڑ گئے ، سوچنے کے لئے تو دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے ذہن کی غذا مطالعہ اور غور و فکر ہے ، ہم جدید دور کی ٹوئٹر نسل کو کیا علم کہ بے چاری کتابیں ذہن کو جلا بخشنے کے کام آتی ہیں ۔

ہم تو اب تک انھیں کاغذوں کا پلندہ ہی سمجھتے رہے ہیں اور ان میں لکھے ہوئے الفاظ کو ہم کیا اہمیت دیں کہ ہم لکھے ہوئے الفاظ کی کم اور مغلظات کی زیادہ پروا کرتے ہیں ، بولنے والے الفاظ تو جیسے ہمارے دل و دماغ پر نقش ہی جاتے ہیں ۔

آج کل کے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہم یہ حقیقت ہی فراموش کر چکے ہیں کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ کتابیں بھی خواب دکھانے کے کام آتی ہیں ، فرق محض یہ ہے کہ کتابوں میں خواب مجسم نہیں ہوتے

آنکھیں اور کتابیں دونوں ہی سپنے دیکھتی اور دکھاتی ہیں ، دونوں ہی خوابوں کو پورا کرنے کی سمت پر غور کرتی ہیں ، دونوں خوب صورت ہوتی ہیں ، دونوں قدرت کے انعام کے طور پر ملتی ہیں کہ کتابوں سے شعور ملتا ہے اور آنکھوں سے روشنی ، بالکل وہی روشنی جو کتابوں کے مطالعے سے ملتی ہے اور اس روشنی سے ہمارے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔

لیکن دونوں میں بس ایک فرق ہے کہ آنکھیں اپنا درد آنسوئوں سے بتا دیتی ہیں ، اپنے دکھ کی ترجمانی کر دیتی ہیں لیکن پتا ہے کیا نہ پڑھی جانے والی نادر کتابیں اپنا دکھ نہیں بتا سکتیں ، اپنی بے قدری کا اظہار نہیں کر سکتیں کیونکہ کتابوں کے آنسو نہیں ہوتے ناں ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے