کتنا لہو اورچاہیے اے ارضِ وطن؟؟

[pullquote]تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن؟؟[/pullquote]

پشاور میں جب خون بہا تو قوم نے عہد کیا تھا کہ اب ہم ایک قوم ایک امت ایک ملک بن کے ابھریں۔ اب ہمارے بچوں تک رسائی کے لئے انکوں ہماری لاشوں سے گذر کر جانا ہو گا۔ اسٹبلیشمنٹ کے وعدے اور سیکورٹی اداروں کے سربراہان کی دھواں دار تقاریر۔۔۔۔!

[pullquote]لیکن کیا ہوا؟؟[/pullquote]

اقدامات پھر درھرے کے دھرے رہ گئے۔ سیکورٹی ادارے پھر منہ تکتے رہ گئیں۔ گولیاں پھر چل گئیں۔ لاشے پھر بکھر گئے۔ صف ماتم پھر بچھ گئی اور گھر پھر اجڑ گئے۔

دن دھاڑے، پھر کسی نے ہمت کی اور ہمارے بچوں کی لاشوں سے گذر کر وہ ہم تک پہنچا۔ اس نے پھر ہمارے بچے اور اساتذہ روند کر ہماری غیرت اور حمیت کو للکارا۔ ہماری جامعہ کو خون سے رنگ کر اس ایک شہ سرخی دی، یہ شہ سرخی، طلباء اور اساتذہ کی شہادت کی شہ سرخی نہی بلکہ یہ شہ سرخی میرے اور آپ کے غیر محفوظ ہونے کی ہے، ہماری مساجد، ہماری جامعات، ہمارے بازاروں اور گلیوں کے غیر محفوظ ہونے کی شہ سرخی۔۔۔!

[pullquote]لیکن کیا ہوا؟؟[/pullquote]

سینے پھر پیٹے گئے۔ آہیں پھر بھری گئیں۔ دلاسے پھر دئے گئے۔ جنازے پھر پڑھے گئے۔ اور پھر ہر بار کی طرح کالم لکھے گئے اور ہم پھر لمبی تان کر سو گئے۔

کبھی دین کے نام پہ اور کبھی قومیت کہ نام پہ، کبھی غیرت کے نام پہ اور کبھی حمیت کے نام پہ، کبھی ملک کے نام پہ اور کبھی قوم کے نام پہ، نعرے پھر لگائے جائیں گے، نغمے پھر گائے جائیں گے، ترانے پھر بجائے جائینگے، دن پھر منائے جائینگے اور ہر بار کی طرح ہم پھر لمبی تان کر سو جائینگے۔

صرف اس آس پہ کہ وردی میں ملبوس چند جرنیل ایک ٹیبل کے گرد سگار کے اٹھتے دھوئیں میں ہماری حفاظت کی کوئی سبیل نکال رہے ہونگے، صرف اس آس پہ یہ حکومت نا سہی اگلی آنے والی حکومت ہماری حالت زار پہ رحم کھائے گی اور اشاروں پہ انکے لئے تعظیماََ رکنے والی قوم کے صبر کا پھل اس بار نہ سہی اگلی بار پک کہ انکی جھولی میں آ گرے گا۔

کب تک خون جمتا رہے گا، کب تک ہم خون کے جمنے سے ظلم کے مٹنے کے انتظار میں ایسے ہی پالیساں بدل بدل کر دیکھتے رہینگے کہ شائد کوئی فٹ آ جائے ۔۔۔۔۔ شائد کوئی فٹ آ جائے، کب تک ہم قوم کو سریلے نغموں، اٹھتی دھنوں اور بجتے ترانوں پہ ٹرخاتے رہینگے؟

[pullquote]آخر کب تک؟َ؟[/pullquote]

کبھی ہمارے معصوم بچوں کا خون، کبھی ہمارے مدارس کے طلباء کا خون، کبھی ہمارے پولیس والے بھائیوں کا خون، کبھی ہمارے فوجی بھائیوں کا خون، اب تو یہ زمین یہ مادر، یہ ماں، یہی خون کی پیاسی لگتی ہے۔ فارسی کی ضرب المثل ہے کہ ہرچہ دانا کند، کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار۔ کہ کتنی لاشیں اور گرینگی اور کتنے اور خاندان برباد ہونگے۔ ارض وطن کے لئے دعا اور سوال کے ساتھ اور اس امید کے ساتھ سونے چلا ہوں کہ اس بار دھوئیں کے مرغولے، بوٹوں کی دھمک اور پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاوس کی چہل پہل اور انکی مسکراہٹیں رائیگاں نہی جائینگی۔

تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن

جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا

کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے