کرسٹل کا مرتبان

طارق فرید ساہیوال کے گاؤں چک نمبر 86/6-Rمیں پیدا ہوئے‘ والدین غریب تھے‘ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا‘ والد غربت سے لڑنے کے لیے 1978ء میں امریکا چلے گئے‘ وہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر ایسٹ ہیون میں آباد ہو گئے‘ وہ برگر کنگ اور میکڈونلڈ میں ملازمت کرتے رہے‘ وہ معمولی ملازمتیں بھی کرتے رہے‘ طارق فرید 1981ء میں اپنی والدہ اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ امریکا شفٹ ہو گئے‘ ان کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی۔

یہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ میکڈونلڈ میں کام کرتے رہے‘ یہ کچھ عرصہ لوگوں کے گھروں میں پھول بھی ڈیلیور کرتے رہے‘ طارق فرید نے 16 سال کی عمر میں 1986ء میں اپنے والد سے پانچ ہزار ڈالر قرض لیا اور فرید فلاورز کے نام سے پھولوں کی دکان کھولی‘ یہ بہت جلد کامیاب ہو گئے‘ ایک فلاور شاپ چار میں تبدیل ہو گئی‘ طارق فرید کی اس کامیابی کے پیچھے ایک چھوٹا سا فارمولا تھا۔

یہ بچپن میں جب اپنے گاؤں‘ اپنے شہر سے فروٹ خریدتے تھے تو یہ دیکھتے تھے دکاندار فروٹ تولنے کے بعد تھیلے میں ایک دو دانے اضافی ڈال دیتے تھے یا پھر یہ گاہک کو کسی دوسرے فروٹ کا ایک آدھ دانا گفٹ کر دیتے تھے‘ دکاندار یہ گفٹ کرتے ہوئے عموماً کہتے تھے ’’باؤ جی ایک آدھ دانے سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے‘ کوئی کمی نہیں آتی‘‘ یہ واقعات اور یہ فقرے طارق فرید کے دماغ میں جڑ پکڑ گئے تھے لہٰذا جب انھوں نے فلاور شاپ کھولی تو یہ ہر گاہک کو ایک آدھ پھول اضافی دے دیتے تھے۔

امریکا جیسے کمرشل اور سرمایہ دار ملک میں یہ بات عجیب تھی چنانچہ ان کے کاروبار کو پر لگ گئے‘ طارق فرید نے فلاور شاپ کے کاروبار میں دو باتیں نوٹ کیں‘ پہلی بات پھول خواہ کتنے ہی خوبصورت اور قیمتی کیوں نہ ہوں یہ ایک آدھ دن میں مرجھا جاتے ہیں اور پھول لینے اور دینے والے دونوں انھیں اٹھا کر ’’ڈسٹ بین‘‘ میں پھینک دیتے ہیں یوں گاہک کی ساری رقم برباد ہو جاتی ہے۔

دوسری بات گاہک یہ جانتے ہوئے کہ یہ پھول بمشکل ایک آدھ دن نکالیں گے یہ گلدستے خریدتے ہیں‘ کیوں؟ طارق فرید نے غور کیا تو پتہ چلا پھول دنیا کا بہترین تحفہ ہیں‘ پھول دینے اور لینے والے دونوں کو خوشی دیتے ہیں‘ آپ ٹھنڈے سے ٹھنڈے اور بیزار سے بیزار شخص کو بھی پھول پیش کریں‘ اس کا چہرہ کھل اٹھے گا اور چہرے کا یہ کھل اٹھنا‘ یہ خوشی گلدستے کی قیمت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے چنانچہ لوگ دوسرے لوگوں کو پھول پیش کرتے ہیں اور یہ کرتے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے طارق فرید کو تحقیقی اور نئے نئے آئیڈیاز تلاش کرنیوالا دماغ دے رکھا تھا لہٰذا انھوں نے گلدستے کو ایسی شکل دینے کا فیصلہ کیا جس سے لوگوں کو خوشی بھی ملے اور یہ اسے دو بار بھی استعمال کر سکیں‘ یہ پھولوں کو دیکھ بھی سکیں‘ سونگھ بھی سکیں اور یہ انھیں کھا بھی سکیں‘ یہ نکتہ دلچسپ تھا چنانچہ طارق فرید نے گلدستے کو پھولوں سے پھلوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ مختلف پھل خریدتے‘ ان پھلوں کو کاٹ کر پھول‘ پتے اور ڈالیاں بناتے‘ انھیں گلدستے کی شکل دیتے اور یہ گلدستہ فروخت کر دیتے۔

لوگ گلدستہ خریدتے‘ دیکھتے‘ خوش ہوتے اور بعد ازاں تمام پھل ایک ایک کر کے کھا جاتے‘ یہ آئیڈیا کامیاب ہو گیا‘ طارق فرید نے ایڈیبل ارینجمنٹس (Edible Arrangments) کے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کرائی اور 1999ء میں ایسٹ ہیون میں کھائے جانے والے گلدستوں کی پہلی فلاور شاپ بنا دی‘ یہ سولہ سو فٹ کی چھوٹی سی دکان تھی‘ طارق فرید کو پہلے دن کیپسٹی سے زیادہ آرڈر مل گئے۔

یہ بڑی مشکل سے تمام آرڈر پورے کر سکے‘ اگلے دن بھی یہی صورتحال حال تھی‘ طارق فرید کا آئیڈیا کلک کر گیا‘ یہ کمپنی اتنی کامیاب ہو گئی کہ 2001ء میں کمپنی نے فرنچائز دینا شروع کر دیں‘ پہلی فرنچائز والتھم میں کھلی اور پھر چل سو چل‘ امریکا میں اس وقت ایڈیبل ارینجمنٹس کے 1090آؤٹ لیٹس ہیں جب کہ ترکی‘ اٹلی‘ ہانگ کانگ‘کینیڈا‘ سعودی عرب‘ بحرین‘ یو اے ای‘کویت‘قطر‘ چائنہ اور پورتوریکو میں اس کے110 اسٹور ہیں۔

یوں دنیا میں طارق فرید کی کمپنی کے بارہ سو آؤٹ لیٹس بن چکے ہیں‘ کمپنی کی مالیت اس وقت 660 ملین ڈالر ہے اور یہ امریکا کی تیزی سے ترقی کرنیوالی فرنچائزز میں شامل ہے‘ طارق فرید کا نام امریکا کے تیزی سے ترقی کرنیوالے پچاس بزنس مینوں میں آتا ہے اور انٹرنیشنل فرنچائز ایسوسی ایشن (IFA) نے فروری 2018ء میں طارق فرید کو ہال آف فیم میں بھی شامل کر لیا‘ طارق فرید اس کامیابی کے بعد رکے نہیں‘ یہ روز دفتر بھی جاتے ہیں‘ یہ اپنے آؤٹ لیٹس پر گاہکوں کی شکایات بھی سنتے ہیں‘ یہ اپنے ’’گلدستوں‘‘ میں تبدیلیاں بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ ’’سیلز مین‘‘ کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔

طارق فرید سمجھتے ہیں ان کے آئیڈئیے کی کامیابی کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ فروٹ ہے‘ امریکا میں ہر قسم کا فروٹ وافر مقدار میں موجود ہے چنانچہ یہ پھلوں کے گلدستوں کے لیے آسانی سے فروٹ حاصل کر لیتے ہیں‘ یہ اگر اپنا بزنس کسی ایسے ملک میں شروع کرتے جس میں تمام فروٹس دستیاب نہ ہوتے تو یہ شاید ناکام ہو جاتے‘ دوسرا امریکی لوگ فروٹ پسند کرتے ہیں۔

عام امریکی شہری اوسطاً 100سے 110کلوگرام فروٹ سالانہ کھاتا ہے‘ یہ لوگ دنیا میں زیادہ فروٹ کھانے والے لوگوں میں شمارہوتے ہیں چنانچہ امریکا میں فروٹ سے متعلق ہر کاروبار کامیاب ہو جاتا ہے‘ امریکی اگر فروٹ پسند نہ کرتے تو بھی ان کا آئیڈیا ناکام ہو جاتا اور آخری وجہ ان کے آئیڈیا کی انفرادیت ہے‘ یہ ایک مختلف کانسیپٹ تھا اور امریکی ہمیشہ منفرد آئیڈیاز کو پسند کرتے ہیں چنانچہ یہ کامیاب ہو گئے‘ یہ اپنی کامیابی میں والدین کی دعاؤں اور محنت کو بھی ٹھیک ٹھاک جگہ دیتے ہیں۔

یہ سمجھتے ہیں اگر ان کے والد 1978ء میں امریکا نہ آتے‘ یہ اگر 1981ء میں پورے خاندان کو نہ بلاتے اور والد اگر انھیں 1986ء میں پانچ ہزار ڈالر نہ دیتے تو یہ شاید کامیاب نہ ہوتے‘ طارق فرید کی والدہ نے بھی بیٹے کی کامیابی کے لیے بے تحاشہ دعائیں کیں‘ یہ دعائیں بھی ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں اور یہ پندرہ سال کی عمر سے مسلسل محنت کر رہے ہیں‘ یہ اس وقت 51 سال کے ہیں‘ یہ آج بھی ہفتے کے چھ دن کام کرتے ہیں جب کہ ان کے آؤٹ لیٹس ہفتے کے سات دن کھلے رہتے ہیں‘ یہ لوگ ساہیوال کے پھل فروشوں کی طرح گاہک کو ایک آدھ اضافی پھل یا چاکلیٹ ضرور دیتے ہیں اور یہ اضافی چاکلیٹ ان کے رزق میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔

طارق فرید کی کہانی کامیابی کی جدید ترین ’’کیس اسٹڈی‘‘ ہے‘ ہم اگر اس کیس اسٹڈی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے دیکھیں تو ہم بڑی آسانی سے ان کی کامیابی کی وجوہات تک پہنچ جائیں گے‘ ان کی کامیابی کی پہلی وجہ ’’آئیڈیا‘‘ ہے‘ آئیڈیا آج بھی دنیا کی کامیاب ترین پراڈکٹ ہے‘ آپ کی عمر زیادہ ہو یا کم‘ آپ لولے ہوں‘ کانے یا پھر اندھے اور آپ گورے ہوں یا کالے آپ کے پاس اگر اچھا آئیڈیا ہے تو آپ چند برسوں میں غریب سے امیر اور لاچار سے سخی ہو سکتے ہیں۔

لوگ دنیا میں ہزاروں سال سے پھول بیچ رہے ہیں لیکن پھولوں کی جگہ پھلوں کا گلدستہ اور سونگھے جانے والے پھولوں کی جگہ کھائے جانے والے پھلوں کا ’’بوکے‘‘ بنانے کا آئیڈیا پہلی بار طارق فرید کے دماغ میں آیا اور یوں یہ چند برسوں میں سات سو ملین ڈالر کی کمپنی کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ دوسرا طارق فرید نے آئیڈئیے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کا اندازہ بھی کیا‘ دنیا میں آئیڈیا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اگریہ غلط جگہ استعمال ہو گا تو یہ بری طرح فیل ہو جائے گا۔

امریکی پھلوں کے عادی ہیں‘ یہ روزانہ پھل کھاتے ہیں اور دنیا میں زیادہ پھل کھانے والوں میں شامل ہیں‘ امریکیوں کی فی کس سالانہ آمدنی 59 ہزار 5 سو ڈالرہے‘ یہ پھلوں کے گلدستے افورڈ کر سکتے ہیں چنانچہ طارق فرید کا آئیڈیا کامیاب ہو گیا اور تیسری وجہ کوالٹی کنٹرول ہے‘ آپ یاد رکھیں خوراک کا کاروبار دنیا کا کامیاب ترین بزنس ہے‘ لی آئیا کوکا نے ایک بار بتایا تھا‘ میرے والد کہا کرتے تھے دنیا کا محفوظ ترین کاروبار خوراک ہے۔

خوراک ہر شخص روزانہ کھاتا ہے‘ آپ جب بھی یہ کاروبار شروع کریں گے آپ ضرور کامیاب ہوں گے‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور وارن بفٹ بھی یہی کہتے ہیں لیکن آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں جتنا کوالٹی کنٹرول خوراک کے کاروبار کو چاہیے اتنا دنیا کے کسی دوسرے بزنس کو درکار نہیں‘ آپ نے ذرا سی بے احتیاطی کی اور شاندار ترین کھانا تباہ ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار ریستورانوں کو خراب کوالٹی کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھا‘ کک گیا اور ساتھ ہی ریستوران بھی چلا گیا‘ فروٹس کھانوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں‘ یہ درجہ حرارت میں معمولی فرق سے باسی ہو جاتے ہیں چنانچہ طارق فرید کو اپنے کاروبار میں ہر وقت کوالٹی کنٹرول کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

دنیا میں ان کے 1200 آؤٹ لیٹس ہیں‘ ان کے کسی آؤٹ لیٹ میں اگر کسی وقت کوئی بھی پھل خراب ہو گیا‘ کسی گاہک کا پیٹ خراب ہو گیا تو ان کا پورا کاروبار تباہ ہو جائے گا چنانچہ یہ پھر یقینا سوتے وقت بھی چوکنے رہتے ہوں گے ‘ آپ بھی اگر طارق فرید بننا چاہتے ہیں تو آپ انوکھا آئیڈیا تلاش کریں‘ مارکیٹ سروے کریں اور پھر کوالٹی کنٹرول کا خیال رکھیں‘ آپ بھی طارق فرید بن جائیں گے لیکن آپ کو اس سے پہلے والدین کی دعائیں بھی چاہیے ہوں گی۔

کیوں؟ کیونکہ آپ والدین کی دعاؤں کے بغیر کامیاب تو ہو سکتے ہیں لیکن آپ والدین کی محبت کے بغیر اس کامیابی کو زیادہ دیر تک سنبھال نہیں سکیں گے‘ کامیابی کرسٹل کا مرتبان ہوتی ہے‘ اسے ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں اٹھے والدین کے ہاتھ تھامے رکھتے ہیں‘ یہ ہاتھ ہیں تو مرتبان ہے‘ یہ نہیں تو پھر یہ جلد گرے گا اور ٹوٹ جائے گا‘ آپ کی کامیابی کرچی کرچی ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے