باقیوں کےکنٹینر لیکن مولانا کاروان ہوم ، ناقابل یقین

پاکستان میں بڑے احتجاج ہوں یا لانگ مارچ، جلسے، جلوس ہوں یا دھرنے، ان سب میں مرکزی کردار (سیاسی رہنماؤں کے بعد) کنٹینر کا ہوتا ہے۔

عام طور پر کنٹینر کو سامان کی نقل و حرکت کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کا وہ استعمال ہو رہا ہے جو شاید بنانے والوں نے بھی نہ سوچا ہوگا۔

انتظامیہ کے لیے کنٹینرز سے شہر بند کرنا آسان ہوجاتا ہے تو دھرنا دینے والوں کے لیے اس میں اپنے لیڈر کے رہن سہن کا بہترین انتظام ہوجاتا ہے۔

عمران خان کے دھرنے سے لے کر علامہ طاہر القادری اور نواز شریف کے جی ٹی روڈ مارچ میں کنٹینر کو استعمال کیا لیکن مولانا فضل الرحمان نے ان تمام سیاسی رہنماؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ایک ایسا کارروان ہوم حاصل کر لیا ہے جس میں ایک گھر کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں۔

اگر آپ نے ابھی تک کاروان ہوم کو اندر سے نہیں دیکھا ہے تو ہم آپ کو مولانا فضل الرحمان کے کاروان ہوم کی سیر کراتے ہیں اور اس کے بعد ذکر ہوگا ڈی چوک کے کنٹینرز کا۔

[pullquote]مولانا فضل الرحمان کا کاروان ہوم[/pullquote]

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ میں کاروان ہوم میں کر رہے ہیں۔ یہ کاروان ہوم اندر سے کافی خوبصورت ہے ہی لیکن باہر سے بھی کچھ برا نہیں۔

اگر آپ اس کے اندر جھانکیں تو محسوس ہوگا کہ آپ جہاز کی اکانومی کلاس سے کسی بہانے یا غلطی سے بزنس کلاس میں داخل ہو چکے ہوں۔

اب پاکستان ریلوے جتنی بھی ترقی کر جائے لیکن اس کی گرین ٹرین کا اندرونی نظارہ اتنا خوبصورت نہیں ہوتا جتنا مولانا فضل الرحمان کا کاروان ہوم ہے۔

اس کاروان ہوم میں بیڈ روم، باتھ روم کچن، ڈرائنگ روم اور لیونگ روم جہاں صوفے لگے ہوئے ہیں اور اسے گاڑی کے پچھے لگا کر کھینچا جاتا ہے۔ یہ کارروان ہوم جے یو آئی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کی ملکیت ہے جو انھوں نے جاپان سے منگوایا ہے۔ ہر بڑے دھرنے میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاسی جماعت اپنے رہنما کے لیے کنیٹر کا بندوبست کرتی ہے۔

[pullquote]عمران خان کا کنٹینر[/pullquote]

تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے کنٹینر کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ 2014 کے دھرنے میں ان کا کنیٹر کئی ماہ اسلام آباد میں کھڑا رہا تھا۔ اتنی لمبی سروس کے بعد اس کنٹینر کی پائیداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن دوسری طرف عمران خان اس وقت انتظامیہ کی جانب سے سڑکوں پر لگائے گئے کنٹینرز سے کوئی خاص خوش نہیں تھے۔

دھرنے کے دوران کئی بار عمران خان نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کنٹینر جو آپ نے سڑک کے چاروں طرف لگائے ہوئے ہیں، یہ لوگوں کا سونامی نہیں روک سکیں گے۔‘

دیکھا جائے تو عمران خان کے کنٹینر میں اتنی آسائشیں نہیں تھیں جو مولانا کے کارروان ہوم میں ہیں۔ ان کے پاس تو صرف کچھ صوفے، میز، کرسیاں، بستر اور ٹی وی ہوا کرتا تھا۔

بارش ہو یا آندھی، وہ اسی کنٹینر کی مدد سے شرکا سے خطاب کیا کرتے تھے اور پھر رات کو اس میں قیام کرتے تھے۔

اسے اہم سیاسی ملاقاتوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کنٹینر کا کردار کسی بڑے سیاسی رہنما سے کم نہیں تھا جو نہ صرف اپنی پارٹی کے تمام بڑے فیصلوں میں موجود ہوتا ہے بلکہ قائد کا اعتماد بلند رکھتا ہے۔

ڈی جے بٹ کے گانے ہوں یا شرکا کے پی ٹی آئی کے حق میں نعرے، عمران خان نے اسی کنٹینر پر یہ محسوس کیا ہوگا کہ وہ اگلے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

[pullquote]’بم پروف‘ کنٹینر[/pullquote]

کنٹینرز کی دنیا میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے کنٹینر کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کے کنٹینر نے نئے سیاسی اتحاد اور اختلافات کو جنم دیا تھا۔

طاہر القادری کے ساتھیوں کی جانب سے اس کنٹینر کو ’بم پروف‘ کہا جاتا تھا جبکہ میڈیا میں یہ خبریں چلتی تھیں کہ اس میں قیام کی تمام سہولیات موجود ہیں۔

اس کے اندر رہنماؤں سے ملاقات کا سامان، باتھ روم اور چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑیاں تھیں۔ یہ سب یقیناً اس لیے تھا تاکہ ڈاکٹر طاہر القادری پرسکون انداز میں حکومت کے سامنے اپنے مطالبات دہرا سکیں۔

وہ اپنے کنٹینر کے اندر سے ہی خطاب کر کے شرکا کو پرجوش اور سرگرم رکھتے تھے اور جب بھی انھیں کنٹینر سے باہر آنا ہوتا تھا تو ان کے ساتھ سکیورٹی اہلکار ہوا کرتے تھے۔

اس کنٹینر میں کئی حکومتی وزرا کو بھی آنے کا موقع ملتا تھا جنھیں مذاکرات کے لیے اندر آنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ ظاہر ہے وہ اس کنٹینر کی سہولیات دیکھ کر یہ سوچتے ہوں گے کہ مظاہرین پوری تیاری سے آئے ہیں اور اپنے مطالبات میں سنجیدہ ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اور دھرنے کے شرکا نے اسی کنٹینر کے اردگرد اپنی رہائش کا انتظام کیا ہوتا تھا۔ بلکہ وہ اپنے لیڈر کی حفاظت پر کنٹینر کے گرد خود کو مامور سمجھتے تھے۔

[pullquote]نواز شریف کا کنٹینر[/pullquote]

سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی حکومت کے دوران دھرنوں کا سامنا کرنے کے بعد یہ چیز اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ لانگ مارچ یا مظاہرے کو کامیاب بنانے کے لیے کنٹینر کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔

اس لیے جب مسلم لیگ نواز نے 2017 میں اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا تو پارٹی قائد کے لیے ایک خاص کنٹینر تیار کروایا گیا۔

اگست کی گرمی سے محفوظ رہنے کے لیے اس کنٹینر میں اے سی بھی موجود تھا۔

تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اس کے بلٹ پروف شیشے کے اندر سے خطاب کے دوران یہ سوال پوچھتے تھے ’مجھے کیوں نکالا۔‘

وہ عوام میں اپنی مقبولیت دیکھنے کے لیے اکثر کنٹینر سے باہر نکل کر ہاتھ لہراتے تھے جس پر مسلم لیگ نواز کے حق میں نعرے لگتے تھے۔

[pullquote]بینظیر کا کنٹینر[/pullquote]

آٹھ سال تک ملک سے باہر رہنے کے بعد جب بینظیر پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ایک عام کنٹینر کو ٹرک پر لاد کر ان کی باحفاظت سواری کا انتظام کیا گیا۔

یہ ایسے کنٹینرز میں سے نہیں تھا جنھیں خاص جلسے کے لیے تیار کروایا گیا ہو۔

اس میں بلٹ پروف شیشہ نصب تھا اور اس کے اردگرد پاکستان پیپلز پارٹی کے رضاکار محافظ تعینات کیے گئے تھے۔ اس کنٹینر کی چھت پر سبز اور سفید رنگ کے لباس میں ملبوس بینظیر نے شرکا سے خطاب کیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے