کوئی میر ؔ سا شعر کہا تم نے!

چند ماہ قبل علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی ایم ایڈ کی ورک شاپ مکمل کروائی۔ آخری کلاس میں ایک طالب علم نے کہا’’سر اپنی پسند کا کوئی ایک شعر سنائیں‘‘۔ بلاتامل میں نے یہ شعر سنایا:

؂ ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے، باندھ کر رختِ سفر رکھا ہوا

شعر سن کر طَلَبہ نے خوب تالیاں بجائیں۔ شعر کو پسند کیا گیا۔ میں نے طلبہ کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے شعر کے خالق ’’احمد ؔ حسین مجاہد ‘‘ کا بھی مختصراً تعارف کرواڈالا۔ مجاہدؔ صاحب کا متبسم چہرہ دیکھ کر ،اُن کی عالمانہ اور محبت میں گندھی ہوئی باتیں سن کر ،اُن کے پیار اور شفقت آمیز جملے سن کر ہر کوئی ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔

احمد حسین مجاہدؔ صاحب سے پہلا تعارف میرے محسن راجا شوکت اقبال مصورؔ کے توسط سے۲۰۰۹ء میں ہوا۔ شوکت صاحب نے ایک روز بتایا کہ آج سہ پَہر تین بجے (طیبہ ہوٹل تانگہ اسٹینڈ مظفرآبادمیں) کشمیر لٹریری سرکل کا اجلاس ہے،تم وقت پر پہنچ جانا۔میں بھلاکہاں انکار کرتا؟فوراً وعدہ کیا کہ وقت پر پہنچ جاؤں گا۔شام تین بجے جب مقررہ جگہ پہنچا تو تمام اہم لوگ (جو کشمیرلٹریری سرکل کاحصہ تھے) موجود تھے۔تاہم ابھی تک احباب میں اضطرابی تھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ابھی کسی اور ہستی کی آمد ہونا باقی ہے ۔

شوکت صاحب سے استفسارکیا کہ اب کس کا انتظار ہے؟بولے ابھی ’’لالہ‘‘ نے آنا ہے ۔ کون لالہ؟ میرے لیے یہ شخصیت نئی تھی۔ احمد حسین مجاہدؔ ، شوکت صاحب نے بتایا اور وضاحت فرمائی کہ کشمیر لٹریری سرکل کے سابق صدر اور بہت ہی عمدہ شاعر۔ اتنی ہی دیر میں لوگ استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک وجہہ شخصیت ہال میں داخل ہوئی۔ اس شخصیت کی آؤ بھگت اور حاضرین کے جوش کو دیکھ کر میرے لیے پہچاننے میں کوئی مشکل نہ رہی۔ یہ احمد حسین مجاہدؔ تھے۔’’ آج کی تقریب کی صدارت مجاہد ؔ صاحب کریں گے‘‘ اعجاز نعمانیؔ صاحب (جو نظامت کر رہے تھے)نے اعلان کیا۔

تقریب بہت اچھی ہوگئی ۔لیکن احمد حسین مجاہدؔ صاحب سے جو تعارف ہوا وہ آج تک قائم اور اس میں کوئی رخنہ آئے ایسا کبھی نہ ہوگا۔ مجاہدؔ صاحب نے اس پہلی ملاقات میں اپنی رپوتاژ ’’صفحۂ خاک‘‘ عطا کی۔ میرے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ پڑھی اور محظوظ ہوا۔ شوکت صاحب نے بتایا کہ نثر کو چھوڑو ان کی شاعری پڑھو۔ مگر کہاں سے؟ بتایا گیا ’’دھند میں لپٹا جنگل‘‘ ان کا مجموعہ ہے۔ ڈھونڈا نہ ملا ۔ وقت گزرتا چلا گیا اور تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اسلام آباد میں حصولِ علم کی غرَض سے گیا اور مزید سیکھنے کو ملا ۔ راول پنڈی ایک پرانی کتابوں کی دکان سے ایک روز اچانک ’’دھند میں لپٹا جنگل‘‘ مل ہی گئی۔ پڑھ کر بہت لطف آیا۔ بہر حال وقت گزرتا چلا گیا۔

نیشل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز (نمل) اسلام آباد میں ایم اے اردو کا دوسرا سمسٹر تھا کہ شعبہ انگریزی کے ایک طالب علم اویس بزدار سے تعلق استوار ہوگیا۔ اویس بزدار کا تعلق تونسہ سے ہے اور شعر و ادب کا اعلا ذوق رکھتے ہیں ۔

ایک روز نمل لائبریری میں بیٹھے ہوئے تھے اویس اٹھ کر جانے لگا تو جاتے جاتے بولا میر تقی میرؔ کا شعر سنو:

؂ ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر، رختِ سفر رکھا ہوا

شعر سن کر حسنؔ ظہیر راجا اور میرے منہ سے بہ یک وقت’’ واہ‘‘ نکلا۔ بارِ دگر سنانے کو کہا، اس نے دوبارہ اپنے خاص لہجے میں شعر سنایا اور لطف دوبالا کردیا۔ حسن ؔ جو کہ خود بھی باکمال شاعر ہے اورہر اچھے شعر پر خاص انداز میں داد دینے کے لیے مشہور ہے، نے بہت سراہا۔ شعر کا انداز، مفہوم، الفاظی، آہنگ اور تخیل ہر اعتبار سے ایسا اعلاتھا کہ میرؔ ہی کا ہو سکتا ہے ۔ میں اور حسنؔ اویس کے جانے کے بعد بھی شعر کے زیرِ اثر رہے۔ پھر یہ شعر ہماری یونی ورسٹی میں اتنا مقبول ہوا کہ شعبۂ اردو اور شعبۂ انگریزی کے بیسیوں طلبہ کی زبان پر رہا۔ یہ شعر میر تقی میرؔ کے نام سے کئی طلبہ نے کلاسیکی شاعری کے پرچے میں بھی لکھ ڈالا۔ ہمارے حافظوں کا حصہ بن جانے والا یہ شعر کس کا ہے؟ اس کا جواب میر تقی میرؔ ہی آتا اور ہم نے کبھی دیوان میر ؔ کھولنے کی زحمت بھی نہ کی کیوں کہ ایسا شعر میرؔ کے علاوہ کون کِہ سکتا ہے؟

۱۹/دسمبر۲۰۱۴ء کو مظفرآباد میں احمد حسین مجاہد ؔ کی نئی کتاب ’’اوک میں آگ‘‘کی تقریبِ پذیرائی تھی۔ اسلام آباد سے حسنؔ ظہیر راجا کے بھائی خالد ظہیر راجا اور ایک کزن عمر قیصر راجا بھی ہمارے ہم سفر ہوئے۔ شام کو ہم لوگ اسٹیٹ ہاؤس جلال آباد کے ہال میں پہنچے تقریب کے لیے ہال بہت خوب صورتی سے سجا ہوا تھا۔ کئی شہروں سے معروف شعرا شریک تھے ’’اوک میں آگ‘‘ سے منتخب اشعار کا ایک بینر دیکھ کر اچانک حسنؔ نے مجھے پکارا۔ اس کے اس انداز میں ایک حیرانی اور جوش تھا۔ میں بھاگا پہنچا تو انگلی کے اشارے سے کہا۔ شعر پڑھو! میں نے شعر پڑھا اب حیرانی میرے حصے میں آئی۔ منتخب اشعار میں سب سے اوپر شعر درج تھا

؂ ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھاہوا
ورنہ وہ ہے ،باندھ کر رختِ سفر رکھا ہوا

شعر پڑھنے کے بعد ہم لوگ مجاہدؔ صاحب کے مزید عاشق ہوگئے۔ شوکت صاحب اور مجاہد ؔ صاحب ایک جگہ ساتھ کھڑے تھے ہم پہنچے اور بتایا کہ ’’یہ شعر تو آج تک ہم میر ؔ کے نام سے سنتے اور سناتے آئے ہیں‘‘۔ مجاہدؔ صاحب کے لیے یقیناً ایک اعزاز تھا۔ یہ سن کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں، شوکت صاحب بھی اپنے مخصوص انداز میں چونکے ۔ ہم پُر جوش انداز میں جب واپس اسلام آباد پہنچے اور اویس بزدار کی اصلاح کی کہ یہ شعر میر تقی میرؔ کا نہیں بل کہ ہمارے محترم احمد حسین مجاہد ؔ کا ہے ۔ اس نے بھی یہ سن کر حیرانی کا اظہار کیا اور اصلاح کے لیے شکر گزار ہوا ۔

مجاہدؔ صاحب کے حوالے سے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ وہ ایک بڑے تخلیق کا ر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے انسان بھی ہیں۔ انھوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ:’’ آپ نے میرے شعر کو خلعت بخشا کہ اسے میرؔ جیسے استاد کے نام لگایا‘‘۔ کسی شاعر کے لیے یقیناً اس سے بڑھ کر اور خوشی کیا ہوگی؟ میر ؔ و غالبؔ تو وہ استادانِ فن ہیں جن کا انداز بھی کسی اعزاز اور مرتبے سے کم نہیں ۔ اگر کسی کے شعر کو ہی غالبؔ یا میرؔ کا کہا جانے لگے تو یہ بہت بڑا اعزاز ہے ۔ بڑے بڑے شعرا نے غزل پر اس لیے زور آزمائی کی کہ میرؔ کا اندازہی نصیب ہوجائے مگر کام یاب نہ ہوئے۔ غالبؔ جیسے استاد نے بھی میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ناسخؔ جیسا شاعر میرؔ کا معتقد ہے۔

مجاہدؔ صاحب کے لیے لکھنا میرے جیسے طفلِ مکتب کے لیے ممکن نہیں۔ تاہم اس شعر کا مجھ پر قرض تھا جس کو چکا نے کی سعئ لاحصل کر رہا ہوں ۔ میں مجاہدؔ صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدائے سخن بھی اس مضمون کو باندھتے تو یقیناً اسی طرح باندھتے مجھے یقین ہے کہ میرؔ خلد میں اس بات پرمسرور ہوں گے ۔ابن انشا کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔

اک بات کہیں گے انشا جیؔ تمھیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہاں کا علم پڑھے، کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے