کون روتا ہے لپٹ کر !

ایک دوست کراچی گیا اس نے جاتے سمے پوچھا آپ کے لیے کیا لاوں؟ میں نے کہا جو چیز اچھی لگی لے آئیں، اس نے پسند پوچھی، سوچتا رہا کیا پسند ہے کچھ سمجھ نہیں آیا ؟ یہی کہا کوئی خاص چیز پسند نہیں، جو مناسب لگے لے آنا، واپسی پر اس نے پھر یہی سوال دہرایا؟ کچھ بتائیں عرض کیا کوئی خاص چیز پسند نہیں.

پچھلے ہفتے ایک دوست نے ایک مہنگی چیز خرید کر دی، اسے کہا یہ بہت مہنگی ہے کوئی مناسب کم قیمت والی لے لیں لیکن اسکا اصرار مہنگی ہی چیز پر تھا ، لے لی، اللہ اللہ خیر صلا !

دوست وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے ہیں، غریبوں کے لیے لکھا انکا کام بھی ہوا، اپنے لیے بھی کوئی گفٹ آتا رہتا ہے، اس دوست کے سوال کے بعد سوچتا رہا کہ کس تحفے کی حقیقی خوشی محسوس ہوئی ؟ تحائف میں کیا پسند آیا؟

دو بار ایسا ہوا جب تحفہ ملا اور آنسو گرے

افریقہ ایک دوست رہتے ہیں سہیل افضل پنوں صاحب، انہوں نے عید کے موقع پر کچھ تحائف بھیجے ، بیچ میں قرآن پاک کا نسخہ بھی تھا،قرآن پاک کا نسخہ دیکھ کر حیران رہ گیا ، یہ وہ وقت تھا جب خدا سے دوری تھی، سبھی کتابیں پاس تھیں صرف قرآن نہ تھا، قرآن پاک کا نسخہ ہاتھوں میں لیا تو بے ساختہ آنسو گر پڑے، دیر تک قرآن پاک کو سینے سے لگائے رکھا، کبھی سینے سے لگاتا اور کبھی آنکھوں سے، میں نے آنکھ قرآنی ماحول میں کھولی، بیچ کا عرصہ جدائی رہی، جدائی کے بعد جب قرآن تھاما تو بے قابو ہو گیا.

میں دوبارہ قرآن پاک سے مل رہا تھا، کوئی بچھڑا ملے تو بے قابو ہونا یقینی ہوتا ہے، الحمد للہ آج تک قرآن پاک سے ملاقات ہوتی ہے.

دوسری بار خوشی کا موقع عاصم اللہ بخش صاحب کی وساطت سے نصیب ہوا، انہوں نے کتاب بھیجی، محمد پیغمبر اسلام، اس کتاب کے ملتے ہی دوبارہ آنسو گرے، مجھے اپنے نبی سے قربت کا موقع میسر آیا، ویسے حضور سے کبھی دور نہیں رہا، دماغ میں سینکڑوں سوالات آئے، ماضی کے عقیدے سوالات کی زد سے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے لیکن نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام وہی رہا، دل حضور کے باب میں خاصا نرم ہے.

ایک بات آ ہی گئی ہے تو کرتا چلا جاوں!

یہ جو اپنے طاہر اشرفی صاحب ہیں نا! یہ ہماری طرح گناہ گار سے آدمی ہیں، لوگوں کو یہ اچھے نہیں لگتے، کچھ لوگ ان کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے، ہم بھی ان پر خاصے مہربان رہے، ہمیشہ تنقید کی، جس کا وہ برا نہیں مناتے، میرے دل میں اب انکا بھی بڑا احترام ہے، وہ جب روضہ رسول پر جاتے ہیں تو ایک جملہ لکھتے ہیں، ہم تو اپنے آقا کے دربار چلے، اس جملے میں اپنائیت، مٹھاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جھلک صاف دکھ رہی ہوتی ہے، آقا کے دربار اس ناز سے جانا سبحان اللہ !

بھائی صاحب !

بگڑے ہوئے لوگوں کو ماضی یاد دلانے کے لیے قرآن سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا، کتابوں کے بیچ رہنے والوں کے لیے سیرت کی کتاب سے بہتر کتاب نہیں ہو سکتی.

خدا یہ عقیدت قائم رکھے ہمارے پاس عقیدت ہی تو ہے ، شاعر نے کہا تھا!

یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کیساتھ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے