کہانی ایک پہلوان کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑے زمانے کی بات ہے دور کسی گائوں میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کو پیار سے سب مانا کہتے تھے۔۔

مانا شکل و صورت میں خوبصورت اور قد کاٹھ کے لحاظ سے بھی جاذب نظر تھا،دوستوں کے ساتھ کشتی دیکھنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا،ایک دن اسکے ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ بھائی تیرا قد کاٹھ ٹھیک ہے جسم بھی مضبوط نظر آتا ہے پھر تو کیوں پہلوان نہیں بن جاتا۔

تیرا نام ہو گا لوگ تیرے قدردان ہونگے۔بس کیا تھا مانے نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی پہلوان بنے گا اسکے لئے اس نے بغیر کسی استاد کے خود ہی سب سیکھنے کا ارادہ کیا اور ایک ماہ بعد ہی اس گائوں کے بڑے پہلوان کو چیلنج بھی کر دیا،

لوگوں نے سمجھایا کہ بھائی اس پہلوان نے اپنی عمر اس فن میں گزاری ہے اسکو دائو پیچ کا پتہ ہے تو کیا کر رہا ہے ابھی تو اس قابل نہیں کہ اسکا کچھ بگاڑ سکے لیکن مانا جی کے سر پر تو مشہور ہونے اور چیمپئین بننے کا بھوت سوار تھا سو مقابلے کا دن طے ہو گیا،مقابلے کے روز گائوں کے لوگ مقررہ مقام پر جمع ہوئے۔

مانا دوستوں کے ہمراہ مقابلے کے لئے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے اکھاڑے میں پہنچ گیا دوسری طرف وہ پہلوان جس نے کئی بڑے بڑے پہلوانوں کو ہرایا تھا اور ایک طرف مانا جس کو پہلوانی شروع کئے ہوئے ایک ماہ گزرا تھا،

مقابلہ شروع ہوا مانے کے دوستوں نے اپنے دوست کی ہمت بڑھانے کےلئے شور مچانا شروع کیا مانے نے بھی زور لگایا اور دوسرے پہلوان کو پریشان کرنے کی بھی کوشش کی لیکن مانے کی تمام کوششوں کے باجود پہلوان کافی مطمئن اور سکون مین نظر آرہا تھا مانا جب اپنی ساری کوشش کر چکا تو دوسرے پہلوان نے یکدم ایک دھوبی پٹکا مارا اور ماہنا چت۔۔۔

دوسرے پہلوان نے جیت کے بعد دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے اور ماہنا جسم میں ہونے والے درد کے ساتھ ہی اپنے دوستوں کو بھی کوسنا شروع ہو گیا کہ تم نے مجھے یہ مشورہ دیا۔۔

لیکن اسکے دوست اس کو یہ سمجھانے لگے کے تم مشہور ہو رہے ہو۔۔

سو مانا بھی یکے بعد دیگرے کئی بار اکھاڑے میں اترا اور ہر دفعہ ہارا جس کے بعد جہاں بھی مانا کسی مقابلے میں حصہ لیتا تو اسکے دوست اور محلے دار وہاں موجود تو ہوتے لیکن منہ چھپا کر بیٹھتے کہ کہیں انہیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ تو ایک کہانی ہے لیکن اسکا تعلق ہماری موجودہ سیاست سے کافی گہرا نظر آتا ہے جہاں پر مقابلہ الزامات کا نظر آتا ہے ایک ایسا پہلوان جو ابھی نوارد ہے اس نے اس فیلڈ کے چیمپئینز پر ایسے الزامات دھر دیئے کہ کافی مشہور بھی ہو گیا اور دوستوں کے کہنے پر اس نے یہ سلسلہ کافی تیز بھی کر دیا،

کہیں آف شور کمپنیوں کے الزامات تو کہیں منی لانڈرنگ کے،کہیں اپنوں کو نوازنے کے الزام تو کہیں سڑکیں اور پل بنانے کے،لیکن شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ جو الزام وہ دوسروں پر لگا رہا ہے وہ واپس پلٹ کر اس پر بھی آسکتے ہیں

لیکن اسکے دوست اس سے یہ مسلسل کام کرائے جا رہے تھے پھر کیا ہوا یکدم وہی الزام اس نووارد کےخلاف بھی منظر عام پر آگئے اسکی بھی آف شور کمپنی نکل آئیں اسکےدوستوں کی بھی اسکا حال بھی وہی ہو گیا جو مانے کا ہوا تھا کہ ساری کوششوں کے بعد دوسرے پہلوان کا دھوبی پٹکا اور ماہنا چت۔۔۔۔

اب کیا ہو گا اور اسکا جواب کیا آئے گا یہ تو معلوم نہیں لیکن اس نووارد کو اتنا ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ اکھاڑے میں اترنے سے قبل پوری تیاری اور دائو پیچ سیکھ کر اترنا چاہئے تاکہ کہیں بھی سبکی نہ اٹھانی پڑے۔۔

اور نووارد کے دوستوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ وہ اپنے دوست کو اس مقام پرنہ لے جائیں کہ انہیں بھی منہ چھپانا پر جائیں ابھی وقت ہے دائو پیچ سیکھنے کا بھی اور اپنی غلطیاں درست کرنے کا بھی جو شاید بعد میں نہیں ملے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے