محمد بن سلمان کی پالیسی ؟؟

محمد بن سلمان کی امریکی/ٹرمپ پالیسی رنگ لا رہی ہے اور صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ اوبامہ دور میں کیے جانے والے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ یہ معاہدہ امریکی و یورپی ممالک اور ایران کے درمیان ایران میں خمینی کے انقلاب بعد کے دور میں جو پابندیاں عائد کی گئیں تھی کو بتدریج اٹھانے کے بارے میں تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی اور جواب میں اقتصادی پابندیوں کو ختم کیا جانا تھا۔ ایران کو اس معاہدے کے بعد اپنا تیل فروخت کرنے کے مواقعوں میں اضافہ ہوا تھا اور ایرانی معیشت کی بہتری کا ہی نتیجہ تھا کہ ایران نے شام،بحرین، یمن اور دیگر کئی ممالک میں جاری لڑائیوں میں خوب پیسہ جھونکا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے مخالفین کو تباہ کرنے کا عندیہ دیا۔

اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے فرانس کے صدر سمیت کئی یورپی ممالک امریکی صدر سے بار بار درخواست کرتے رہے ہیں۔ امریکی کانگریس بھی اس معاہدے کی پاسداری کے بارے میں ایران کی حمایت کرتی رہی ہے مگر اس سب کے باوجود یہ معاہدہ عملی طور پر منسوخی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے جب امریکہ کا دورہ کیا تھا اور اسی طرح جب ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو اس وقت کئی ارب ڈالر ادا کیے جانے کی بازگشت سنائی دی گئی تھی۔ نوجوان ولی عہد کو مسلسل اس تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ سعودی دولت امریکی صدر پر نچھاور کر کے بھی کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کر سکے۔ اب صدر ٹرمپ نے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر کے کم از کم یہ ثابت کر دیا ہے کہ سعودی عرب کے لیے محمد بن سلمان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کام کر رہی ہے۔ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کی قربتوں پر تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایران معاہدہ دراصل اوبامہ اور ایرانی لابی کی قربتوں کا ہی شاخسانہ تھا۔ کچھ لوگوں کو آج کی قربتیں حرام اور اوبامہ کے ساتھ قربتیں حلال دکھائی دیتی ہیں۔

یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ ہی فی الوقت سب سے بڑی فوجی و معاشی طاقت ہے اور اسی کی آشیر آباد سے بین الاقوامی ادارے اور نظام بڑی حد تک استوار ہے۔ ایسے میں محمد بن سلمان نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے جو اوبامہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے نتیجے میں شدید خطرات سے دوچار تھا، بروقت اور صائب راستہ اپنا کر ایک بڑا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ یہ محمد بن سلمان کی نفسیاتی کامیابی بھی ہے اور اس سے انہیں داخلی محاذوں پر بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کا موقع ملے گا۔

امریکہ و یورپ میں بیٹھی ایرانی لابی کے زیراثر مغربی میڈیا بالعموم اور بی بی سی بالخصوص سعودی عرب اور محمد بن سلمان کے خلاف مسلسل خبریں شائع کر رہا ہے۔ اس سب کا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح محمد بن سلمان اور اس کی پالیسیوں کو ڈس کریڈٹ کیا جائے۔ اس مخالفت میں ایک طرح کا داخلی تضاد بھی ہے کہ معاشرتی سطح پر لبرل اقدار کے فروغ کے لیے مغربی میڈیا ہمشیہ کوشاں رہتا ہے مگر محمد بن سلمان کا نام آتے ہی سکینڈلائیز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محمد بن سلمان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اسے بیک وقت اسلامسٹوں اور لبرل لابی کی مخالفت کا سامنا ہے۔ لبرل لابی اوبامہ کے مشرق وسطیٰ میں برپا کیے جانے والے جمہوریت پراجیکٹ اور ایران نواز پالسیوں کی ہزیمت میں محمد بن سلمان کے کردار کی وجہ سے اس کے مخالف ہیں۔ اسلامسٹ مصر سے شروع کر کے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنے حکومتی و خلافتی منصوبے کی لپیٹ میں لیے جانے والی خواہش کو پامال کرنے کی ذمہ داری محمد بن سلمان پر ڈال کر اس کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر کا ایرانی معاہدے کے بارے میں بیان کم از کم محمد بن سلمان کے لیے ایک خوش گوار خبر ہے چونکہ مفت کچھ بھی نہیں ہوتا، سو اس کی قیمت سعودی حکومت اور عوام کو مسلسل چکانی پڑے گی مگر جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا!

پاکستان کو صدر ٹرمپ کے اس معاہدے سے متعلق بیان پر ردعمل دینے میں انتہائی احتیاط اور کم گوئی سے کام لینا ہوگا۔ ایک عرصے تک پاکستان کی امریکی ایوانوں تک رسائی شاہ ایران کی وساطت اور آشیر آباد سے ہوتی تھی۔ آج حالات بدل گئے ہیں اور ٹرمپ کے جارحانہ رویے کو نیوٹرلائز کرنے کے لیے پاکستان کے پاس فی الوقت محمد بن سلمان سے بہتر کوئی آپشن نہیں ہے۔ افغانستان کے حوالے سے جب امریکی پالیسی معقولیت کی حدود سے نکل کر جارحیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اسلام آباد کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ ریاض کے ذریعے واشنگٹن تک اپنا موقف پہنچایا جائے۔ کسی جذباتیت اور لابی کے زیراثر ہمیں اس کھلے دروازے کو دفتر خارجہ کے ممکنہ غیر محتاط ردعمل سے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے