کیا "اس” اسلام کو رسول اللہ ﷺسےمنسوب کرنا توہین نہیں ؟

میں گھر کے کام کاج میں اکثر اوقات سستی کا مظاہرہ کر تا ہوں ۔والدہ کہتی رہتی ہیں کہ جاؤ یہ کام کر دو ،یہ کر دو ،میں کہتا ہوں کہ دیکھیں ،میں ایک بڑا صحافی ہوں ۔ایک بڑے ادارے میں کام کرتا ہوں ،اب میرے ساتھ یہ کام نہیں جڑتے ۔ وہ ناراض ہو جاتیں ہیں ۔

ایک دن میں ایبٹ آباد گیا ہوا تھا ۔انہوں نے دوپہر میں مجھے جگا دیا اور کہا کہ گھر میں کوئی نہیں ۔ جا کر بازار سے سبزی لے آؤ ۔میں سبزی خریدنے کے لیے بازار گیا ،وہاں سبزی کی کئی دکانیں موجود تھیں ۔ میں نے دیکھا کہ ایک دکان بڑی عالیشان اور خوبصورت تھی ۔ میں اس میں داخل ہو گیا ۔دکاندار نے مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا ۔میں نے مطلوبہ سبزیوں کی لسٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی ۔اس نے سبزیوں کا وزن کیا ۔ اچھے خوبصورت شاپر میں ڈال کر میرے حوالے کر دیں ۔ میں سبزیاں لیکر گھر پہنچا ۔والدہ کے ہاتھ میں شاپر پکڑا یا اور خود جا کر ڈرائینگ روم میں ٹی وی دیکھنا شروع کر دیا ۔

ٹی وی پر محرم الحرام کی مناسبت سے گفت گو چل رہی تھی جس میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بڑی علمی اور تحقیقی گفت بحث تھی ۔ علماء نے خوبصورت رنگوں کے عمامے اور جبے پہن رکھے تھے ۔ پروگرام کا سیٹ بھی بڑا خوبصورت بنایا گیا تھا ۔ ان ساری چیزوں نے ٹی وی کی اسکرین میں مزید کشش پیدا کر دی تھی ۔میں اس گفت گو کو غور سے سننے لگا ۔ کتابوں کے حوالے دے دے کر اپنے مقدمات درست ثابت کئے جا رہے تھے ۔ گفت گو بڑی دلچسب تھی لیکن اڑھائی گھنٹے گذرنے کے باوجود بھی کوئی نتیجہ نہیں ۔ مجھے بھوک لگ گئی ۔میں ڈرائینگ روم سے باہر نکلا اور والدہ کو پکارا ، جواب نہ پاکر میں نے گھر میں دیکھا تو وہ نہیں تھیں ۔ میں پریشان ہو کر کچن میں گیا ۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ جو سبزی میں لایا تھا ،ان کے شاپر کھلے پڑے ہیں ۔ کٹے ہوئے آلو تھے لیکن درمیان سے کانے ،گوبھی میں کیڑے گھوم رہے تھے ۔اٹماٹروں میں سے پانی نکل رہا تھا جبکہ ان پر سفیدی سی بنی ہوئی تھی ۔ میں نے اپنے سر پر زور سے ہاتھ مارا کہ کاش میں دکان پر دیکھ لیتا ۔

میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا ۔امی کے ہاتھ میں سبزی کے شاپر تھے اور مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر غصے اور محبت کی ملی جلی ایک کیفیت تھی ۔ کہنے لگیں ، اتنا پڑھنے کا کیا فائدہ کہ بندہ آلو ،ٹماٹر بھی ڈھنگ کے نہ خرید سکتا ہو ۔

میں نے کہا کہ ،میں جلدی میں دیکھ نہیں سکا لیکن آپ مجھے کہتیں ،خود کیوں گئیں بازار ؟

کہنے لگیں ،تین بار تمھیں آواز دی تھی لیکن تم ٹی وی دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ تم نے سنا ہی نہیں ،میں نے سوچا تمھیں دوبارہ بھیجنے کا ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں ،اس لیے خود بازار سے لے آئی ۔ میں نے شاپر نکال کر سبزی دیکھی ،بالکل صاف ،ستھری ،تازہ اور سستی ،،،،میں نے پوچھا کس دکان سے لائیں ؟ تو کہنے لگی ،دکان سے نہیں ریڑھی سے لائی ہوں ،وہ ریڑھی صبح میں نے بھی دیکھی تھی بالکل اس عالیشان دکان کے سامنے ۔میں نے اپنی حماقت پر مزید شرمندہ ہوتے ہوئے رشک بھری نگاہوں سے امی کا چہرہ دیکھا ۔ میری امی تو بالکل ان پڑھ ہیں ۔میرے نانا کے قتل کے 3 ماہ بعد پیدا ہوئیں ،اپنے والد کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکیں ۔ حالات کے جبر نے انہیں پڑھنے نہیں دیا لیکن انہوں نے ہمیں پالا ،بڑا کیا ،پڑھایا ،لکھایا ،شادیاں کرا دیں ۔ ہمیشہ اپنا فائدہ ہمارے لیے قربان کر دیا ۔ میں خود کو پڑھا لکھا اور انہیں ان پڑھ سمجھتا رہا ۔ میں کتابوں میں فساد پڑھتا رہا ، وہ میری آنکھوں میں نئے خواب بناتی رہیں ۔ میں نے کہا کہ لائیں وہ گندی سبزیاں ،اسے میں دکاندار کے منہ پر مارتا ہوں ، انہوں نے کہا کہ تم اب جا کر لڑو گے اور مزید وقت ضائع کرو گے۔ہونا کچھ نہیں ،وہ کہے گا کہ میں نے یہ سبزیاں دی ہی نہیں تھیں ۔

وہ کھانا بنانے میں مگن ہو گئیں اور میں اخروٹ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر یہ سوچتا رہا کہ ان عالیشان دکانوں میں کتنے بڑے بڑے ٹھگ بیٹھے ہوتے ہیں جو لوگوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ لوٹتے ہیں ۔ اسی طرح مذہب کے لبادے میں کتنے بڑے بڑے شیطان جبہ و دستار پہن کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کو خدا کے نام پر لوٹتے بھی ہیں اور انہیں لڑا کر اپنی سیاست بھی چمکاتے ہیں ۔ بالکل سبزی والے کی طرح ،ٹی وی پر بیٹھے لایعنی فضول گفت گو کرنے والے ملاؤں کی طرح ۔ میں اچھی سبزی خریدنے کے چکر میں گند اٹھا لایا ۔ اسی طرح کچھ لوگ تاریخ اور مذہب کے نام پر گند اٹھا لاتے ہیں جس کی بد بو اور تعفن سے دماغ بد بودار ہو جاتے ہیں ۔گفتار بدبو دار ہو جاتی ہے اور پھر کردار بھی ۔

مجھے امی بلاتی رہیں لیکن میں ٹی وی پر ملاؤں کی فساد بھری گفت گو (جسے میں علمی اور تحقیقی سمجھ رہا تھا ) میں مگن رہا اور
امی کی بات نہ سن کر اپنا نقصان بھی کیا اور انہیں تکلیف بھی دی ۔ اسی طرح اس وقت ہمیں بھی کچھ مدہم سی آوازیں آرہی ہیں کہ جو تم پڑھ رہے ہو اور جو کچھ کر رہے ہو ،وہ فتنہ ہے ،فساد ہے ،انتشار ہے ،اس سے بچ جاؤ ،یہ اللہ کا دین نہیں ۔ہم ان آوازوں کا انکار کر کے خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہوتے ہیں ۔1400 سو برسوں سے سوداگر ہمیں اللہ کے نام پر لوٹ رہے ہیں ۔ ہمیں لڑا رہے ہیں ۔ ہمیں مشتعل کر کے ایک دوسرے کے خلاف اکسا رہے ہیں ۔ چلو ان میں تو عقل نہیں تھی ،کیا تم میں بھی نہیں ؟؟1400 سو برسوں سے تو تم اس زہر یلے لٹریچر کو پڑھ پڑھ کر ناگ بن چکے ہو ،مزید کتنا عرصہ اور کتنی نسلیں تمھاری اس شوق آوارگی کی نذر ہوں گی ۔تم کب تک اللہ ،رسول ،صحابہ و اہل بیت کے نام پر سادہ لوح کو یرغمال بناتے رہو گے یا بنتے رہو گے ۔

اللہ کا دین تو سراسر سلامتی ،امن ،استحکام ،احترام ،اخوت ،بھائی چارہ ،رواداری ہے ،رسو ل اللہ کا لایا ہوا دین تو صرف پیار ہی پیار ہے بالکل ماں کے پیار کی طرح ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے