کیا اینٹی بایوٹک بحران کا حل ہلدی میں پوشیدہ ہے؟

لندن: آپ بار بار یہ خبریں پڑھ چکے ہیں کہ دنیا بھر میں اینٹی بایوٹکس تیزی سے ناکام ہورہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے جرثومے (بیکٹیریا) ان دواؤں کو بے اثر بنارہے ہیں۔

لیکن اب ماہرین نے اینٹی بایوٹک ادویہ کے سامنے مزاحمت کرنے والے ایک بہت مشہور بیکٹیریا پر ہلدی سے حاصل شدہ ایک مرکب آزمایا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

اس وقت دنیا کی 24 سے 79 فیصد آبادی ایک ہیلی کوبیکٹر پائلوری (ایچ پائلوری) سے متاثر ہے جو انسانی آنتوں اور نظامِ ہاضمہ میں پایا جاتا ہے اور کئی ادویہ کو پچھاڑ چکا ہے۔ اب ڈاکٹروں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

لیکن اب جرمنی اور برطانوی ماہرین نے کسی اینٹی بایوٹکس کے بغیر ایچ پائلوری کے حملے کو روکنے کا ایک راستہ نکالا ہے۔ انہوں نے ہلدی میں پایا جانے والا ایک اہم اور مشہور مرکب سرکیومن اور ہلدی کے دیگر اجزا کو کیپسولوں کی شکل دی۔ سرکیومِن پہلے ہی اپنے جادوئی خواص کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکا ہے جس میں دل، کینسر اور دیگر امراض کو روکنے کی صلاحیت موجود ہے۔

لیڈز میں اسکول آف فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن کے پروفیسر فرانسسکو گویوکولی نے کہا کہ دنیا کے 70 فیصد افراد میں ایچ پائلوری کا بیکٹیریا موجود ہے اور یہ دن بدن طاقتور ہوکر دواؤں کا اثر ختم کررہا ہے۔ اس ضمن میں ہلدی سے اخذکردہ کیپسول نہایت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایچ پائلوری معدے کے رطوبت میں چھپے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس دوائیں اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور اگر پہنچ بھی جائے تو خود بیکٹیریا بھی اس کے خلاف مورچہ لگاچکے ہیں۔ اس ضمن میں اگر بہت چھوٹے نینوکیپسولوں میں سرکیومِن شامل کرکے انہیں مریض کو دیا جائے تو اس سے بیکٹیریا معدے کی دیوار سے چپکنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد اوپر آجاتے ہیں جہاں اینٹی بایوٹکس انہیں اچھی طرح نشانہ بناکر ختم کرسکتی ہے۔

ماہرین نے جو نینو کیپسول بنائے ہیں ان سب کو لائسوزائم خامرے(اینزائم) میں لپیٹا گیا جو بیکٹیریا انفیکشن سے لڑتا ہے۔ تاہم کیپسول کے اندر سرکیومن کے ساتھ ایک اور کمیکل ڈیکسٹران سلفیٹ کی تھوڑی سی مقدار بھی شامل کی ہے۔ لیکن اس میں ہرممکن طور پر قدرتی اجزا استعمال کئے گئے ہیں۔

اس کے بعد تجربہ گاہ میں ایچ پائلوری والے معدے کے خلیات پر ان خردبینی کیپسولوں کو آزمایا گیا اور اس کے بعد وہ اینٹی بایوٹکس کےنشانے پر آکر ختم ہونے لگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے