کیا یہ برداشت نہیں؟

وزیراعظم نے گذ شتہ دنوں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا مطلب دوسروں کو برداشت کرنا ہے۔معلوم نہیں وزیراعظم کے نزدیک برداشت کرنے سے کیا مراد ہے۔اور برداشت کسے کہتے ہیں کل لاہور کے جناح ہسپتال میں قصور کی ایک خاتون فرش پر دم توڑ گئی۔ہسپتال کا عملہ اس بد بخت کو ایک ہسپتال سے دوسرے اور دوسرے سے پہلے میں بھیج کر خوار کرتا رہا مگر بیچاری کو علاج کے لیے بستر نصیب نہ ہوا اور اس کی اکھڑتی سانسیں فرش پر لیٹے لیٹے ہی تمام ہوں گئیں .

اس کے گھر والے خاموشی سے اس کی لاش کو واپس قصور لے گئے . یہ صرف ایک واقعہ ہے ورنہ یہاں ہسپتالوں میں آئے روز یہی ہوتا ہے کیا یہ برداشت نہیں؟

کبھی کوئی اپنی اہلیہ کی لاش ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے گدھا گاڑی پررکھ کر لے جانے پر مجبور نظر آتا ہے یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے؟

کوئی ہسپتال کے اندر ہی کسی پیارے مریض کی چارپائی خود ہی گھسیٹتا نظر آتا ہے کوئی ہسپتال میں ونٹیلیٹر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کسی پیارے کو مرتا ہوا دیکھتا ہے یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے؟

کوئی دل کے عارضے کا مریض اینجیو گرافی کی سال دو سال بعد کی تاریخ لے کر بھی خاموش ہے حالانکہ کون جانے ایسا مریض اگلا دن بھی دیکھ پاتا ہے یا نہیں یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے ؟

کوئی تھانے اور کچہری میں انصاف کے حصول کے لیے سالوں دھکے کھاتا ہے اور اس کو انصاف اس وقت ملتا ہے جب وہ منوں مٹی کے نیچے جا چکا ہوتا ہے یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے؟

کوئی سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کو خوش آمدید کہتا ہے اور کوئی گرمیوں میں گھنٹوں بجلی کے بغیر راضی ہے یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے ؟

آپ باہر علاج کروائیں ،آپ باہر گھر بنائیں ، آپ کے بچے باہر تعلیم حاصل کریں ، باہر ہی کاروبار کریں ، یہاں ملک میں پرتعیش زندگی گزاریں ، سال میں ایک آدھ بارغریب اور ناچار لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک دو آنسو گرا لیں اور تیس سال حکومت کرنے کے بعد بھی یہ کہہ کر تالیاں بجوائیں کہ ہسپتال بننے چاہئیں اور لوگ آپ کا احتساب کرنے کی بجائے آپ کے نعرے لگائیں ، یہ برداشت نہیں تو اور کیا ہے ؟

مگر شاید آپ تو ان لوگوں کی برداشت کی بات نہیں کر رہے تھے ، ان بیچاروں کی برداشت یا تنقید سے آپ کو کیا فرق پڑنے والا ہے ، یہ برداشت نہ بھی کر رہے ہوں آپ کو دل ہی دل میں کوس بھی رہے ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے . آپ تو اپنے حریفوں کی برداشت کی بات کر رہے تھے جن کی وجہ سے شاید وقتی طور پر ہی سہی اقتدار کا مزہ لوٹنے میں دشواری ہو رہی ہے ، کبھی اپنی توجہ احتجاجوں کی طرف کرنی پڑتی ہے تو کبھی جلسوں سے نمٹنا پڑتا ہے ، کبھی وقت بے وقت خطاب کرنا پڑتا ہے تو کبھی عدالت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ، یہ ہیں اصل مسئلےجن پر آپ نے برداشت کرنے کا لیکچر دیا ورنہ کوئی سردی سے مرے یا گرمی سے کوئی فرش پر جان دے یا تھانے کچہری میں آپ کی بلا سے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے