گئے گزرے، بددعائے ہوئے لوگ

بچپن میں سکول فیلوز کے درمیان ’’ہائیٹس‘‘ کا مقابلہ ہوا کرتا تھا مثلاً یہ کہ رفتار کی ہائیٹ کیا ہے؟ بتایا جاتا کہ رفتار کی انتہا یہ کہ کوئی آدمی سوئمنگ پول کے گرد یہ سوچ کر دیوانہ وار دوڑنا شروع کردے کہ اس نے خود اپنی کمر تک پہنچ کر اپنے ہاتھ سے وہاں کھجلی کرنی ہے۔ اک اور ’’ہائیٹ‘‘ کا تعلق بےروزگاری سے تھا۔ بےروزگاری کی انتہا کا تعلق اس رقاصہ کے ساتھ جوڑا جاتا جس کے گھنگھرئوں پر جالے لگ چکےہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔آج یہ بھول بسری باتیں اک دلچسپ خبر پڑھ کر یاد آئیں تو سوچا یہ ہے مہنگائی کی انتہا۔ خبر یہ ہے کہ مہنگائی سے جاتی امرا یا جاتی عمرہ بھی اس قدر متاثر ہوا کہ ’’ٹی ٹی ٹولے‘‘ کو بھی ’’ڈائون سائزنگ‘‘ پر مجبور ہو کر چالیس (40) ملازمین فارغ کرنا پڑے۔ سابق وزیراعظم اور (ن)لیگ کے تاحیات قائد المعروف قائداعظم ثانی کی ذاتی رہائش گاہ سے فارغ کئے جانے والے ملازمین میں سیکورٹی سٹاف، مالی، خاکروب اور دیگر چھوٹے موٹے ملازمین شامل ہیں… ہائے کیا وقت تھا جب ’’ووٹ کو عزت‘‘ دیتے ہوئے سب ہی کچھ ’’اون دی ہائوس‘‘ چل رہا تھا۔

’’خوش رہو دوسروں کے خرچے پر‘‘ کی انتہا یہ کہ گھروں کے گرد بم پروف فصیل بھی سرکاری خرچ سے بنوائی گئی اور ’’حکمران خاندان‘‘ کی سیکورٹی کے لئے لاتعداد پولیس اہلکار انگیج کئےگئے۔ اتنے مہنگے ’’خادم‘‘ تو قارون تا بل گیٹس بھی افورڈ نہیں کر سکتے جیسے ان بھوکے ننگے عوام نے پیٹ کٹوا کر افورڈ کئے۔ شہر سے ’’بیلی پور‘‘ جانے کے لئے ہمارے پاس دو ہی راستے تھے، ایک ملتان روڈ پر سندر اڈہ سے لیفٹ ہو کر وہاں یعنی ’’بیلی پور‘‘ پہنچتا، دوسرا ’’حکمران خاندان‘‘ کے جاتی امرا کے سامنے سے گزرتا جہاں کا تام جھام اور پولیس ملازمین کا جمعہ بازار دیکھ کر میرا خون کھولتا کہ عوام بدترین عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ ان لوگوں نے بقا نہیں، انا کے لئے آدھی پولیس یہاں ٹانگی ہوئی ہے۔ دو تین بار پھڈا بھی پڑا تو پولیس ملازمین نے حکمران خاندان کو مختلف القابات و عنوانات سے نوازتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیئے کہ ’’حسن صاحب! لعنت بھیجیں ہماری نوکریوں کا سوال ہے‘‘۔ تنگ آ کر میں نے یہ رستہ ہی ترک کردیا۔

اب وہاں الو بولتے ہیں، ویرانہ ہے اور ہو کا عالم، سب مغرور مفرور۔میں ہوں ’’دن‘‘ کا ایک بجا ہےسونا رستہ بول رہا ہےمیں سوچتا ہوں ان میں سے کسی کا کچھ بھی نہیں جھڑا، کچھ بھی نہیں بگڑا لیکن DNAہی کچھ ایسا ہے کہ پھر باز نہیں آئیں گے ورنہ تھوڑی سی گریس بھی ہوتی تو جلا وطنی کے بعد اقتدار میں آکر رب کا شکر ادا کرتے اور کینڈے میں رہتے لیکن نہیں کیونکہ سیکھنے کے لئے بھی تربیت ضروری ہے۔جس روزنامہ میں ’’حکمران خاندان‘‘ ڈائون سائزنگ کی خبر چھپی ہے اسی خبر کے عین نیچے دو اور خبروں کا تعلق بھی ’’ووٹ کی عزت‘‘ کے ساتھ ہے۔پہلی خبر کی سرخی ……..’’صاف پانی کمپنی افسران کے سرکاری فنڈز پر غیر ملکی دورے‘‘۔دوسری خبر کی سرخی …..’’شہباز فیملی کے مبینہ فرنٹ مین نثار کی اکائونٹ تفصیلات موصول‘‘۔حیرت ہوتی ہے جب اس قسم کی افواہیں سنتا یا پڑھتا ہوں کہ اب بھی اس حکمران خاندان کے کسی بقیئے کو آزمانے کا امکان ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے کہ یہ ملک کسی نئی واردات کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ بھی یاد رہے کہ بے شک وہ ’’غفور الرحیم‘‘ ہے، 70مائوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے لیکن دوزخ بھی اسی خالق و مالک و رازق نے دہکا رکھے ہیں اور کرتوتوں کی ہی سزا تھی کہ اس نے غرناطہ، بغداد اور ڈھاکہ پہ رحم فرمانا مناسب نہیں سمجھا تاکہ سبق سیکھو اور ان سوراخوں سے بار بار نہ ڈسے جائو۔کیا ہم اتنے ہی گئے گزرے اور بددعائے ہوئے لوگ ہیں کہ 22کروڑ کی آبادی میں اور کوئی دکھائی نہ دے؟

اور کوئی ارینجمنٹ سجھائی نہ دے؟ پہلی، دوسری، تیسری چوائس تو یہ بنتی ہے کہ ان کو عشروں آزمایا، انہیں باقی چند برسوں بھی آزمائو کہ رہ ہی کتنے گئے؟ اور دنیا کا احمق ترین شخص وہ ہے جو بار بار ایک سی حرکت ری پیٹ کرکے ہر بار یہ توقع رکھے کہ اس بار ’’نتیجہ‘‘ مختلف ہوگا۔پاکستان کو مہنگائی، بےروزگاری، غربت اور ٹیکسوں کے بوجھ جیسی بلائوں کا سامنا ہے تو ان سب کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ہفتوں، مہینوں اور ڈیڑھ دو برسوں میں جنم نہیں لیتا۔ قوم انہی لوگوں کی کاشت کردہ کانٹوں کی فصل کاٹ رہی ہے۔دھیرج مہاراج دھیرج!ہتھیلی پہ سرسوں صرف محاوروں میں اگتی اور سجتی ہے۔ یہ لمحوں نہیں، برسوں بلکہ عشروں کی خطا در خطا در خطا ہے جس کی سزا صدیوں نہ سہی، چند سال تو بھگتنی ہی ہوگی۔ بےصبری کے نتیجہ میں سو جوتوں اور سو پیازوں والا سائیکل کبھی مکمل نہ ہوگا کیونکہ شاید ہم اتنے گئے گزرے اور بددعائے ہوئے تو ہرگز نہیں… شاید۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے