’’گرینڈ بازار اور یونی ورسٹی‘‘

جس دن سے استبنول میں قدم رکھا تھا کسی نہ کسی حوالے سے گفتگو میں گرینڈ بازار کا ذکر نکل ہی آتا تھا بلکہ یہاں آنے سے قبل ہی اس کی تصویروں اور خصوصیات دونوں سے آنکھیں اور کان آشنا تھے، یہ اور بات ہے کہ عملی طور پر اس چھتے ہوئے بازار میں گھومنا پھرنا اور شاپنگ وغیرہ کرنا ایک بالکل مختلف تجربہ ہے لیکن اس کے بیان سے قبل شاپنگ کے حوالے سے شفیق الرحمن کا ایک بہت مزے کا جملہ یاد آ رہا ہے کہ اردو میں شاپنگ کا ترجمہ عام طور پر ’’خریدوفروخت‘‘ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے جو عملی طور پر کوئی بہت زیادہ درست اور بامعنی نہیں ہے اور شفیق الرحمن مرحوم نے ا س کے اسی پہلو میں مزاح تلاش کیا ہے۔ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ روم کی سیر کے دوران جب کسی سے پوچھا گیا کہ آپ یہاں آئے ہیں تو کیا کچھ خریدوفروخت بھی کی ہے۔ اس پر جو جواب ملا وہ کچھ یوں تھا ۔

’’جی ہاں کچھ خریداری تو کی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک فروخت کی نوبت نہیں آئی‘‘

ماضی میں ممکن ہے اس بازار کی کوئی اور بھی صورت رہی ہو لیکن فی الوقت یہ صرف سیاحوں کے دم قدم سے آباد اور رواں دواں ہے کہ یہاں کی تقریباً ہر دکان میں ایسی چیزیں رکھی گئی ہیں جنھیں سیّاح بطور تمغہ اور یادگار اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اصلی سونے چاندی کے ساتھ ساتھ یہاں مصنوعی جیولری قدم قدم پر راستہ روکتی ہے اسی طرح ترکی کی عمارات تاریخ اور کلچر سے متعلق اشیاء کی اس قدر بھرمار ہے کہ خدا کی پناہ لیکن سب سے زیادہ مانگ خاص انداز اور طرح طرح کے رنگوں اور نقش و نگار کی حامل اُس کراکری کی ہے جو پلیٹوں، پیالوں، ڈونگوں، قہوہ اور کافی سیٹ اور طشتریوں کی صورت میں نظر کو روکتی اور جیبوں کو ہلکا کرتی ہے۔

یہ بازار کئی ملحقہ گلیوں میں بھی پھیلا ہوا ہے البتہ کہیں بھی اس کے اندر سے آسمان کو نہیں دیکھا جا سکتا اگرچہ یہاں آنے والے بیشتر گاہک غیر ملکی ہوتے ہیں مگر انگریزی سمیت یہاں کسی بھی غیر ملکی زبان کو بولنے ا ور سمجھنے والوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بہت کم ہے کہ اکثر دکانداروں کی انگریزی کے ذخیرہ میں ویری چیپ، اوکے، گڈ مارننگ ٹائپ چند لفظوں تک ہی محدود ہے مگر اس کے باوجود ان کی زبانیں اور کیلکولیٹر پر چلنے والی انگلیاں نہ صرف بغیر رُکے چلتی رہتی ہیں بلکہ انھیں اپنے مطلب کی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کا فن بھی بہت اچھی طرح سے آتا ہے۔

سنا ہے کہ عام طور پر وہاں مول تول میں اوپر نیچے ہونے کی گنجائش بہت زیادہ ہوتی ہے مگر کرسمس کے دنوں میں وہ عا م طور پر منہ مانگی قیمتیں وصول کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان دنوں میں گاہکوں کی آمد زیادہ اور موڈ عام طور پر فراخ دلانہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی سرکاری گائیڈ رفیق اور عزیزی فیضان کی وجہ سے دو گونہ آسانی رہی کہ اُن کی ترکی دانی کی وجہ سے ہماری ابلاغ کی سطح نسبتاً بلند ہو گئی اور خریدا ہوا سامان اُٹھانے میں بھی آسانی ہو گئی کہ دونوں نوجوان خدمت گزاری کے جذبے سے سرشار تھے۔

خلیل طوقار بھائی نے کہا تھا کہ اگرچہ تقریب کا وقت دو بجے ہے لیکن اگر آپ ایک بجے تک پہنچ جائیں تو لنچ بھی ایک سا تھ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ بات دو تین بار بیگم کو یاد دلانے کی کوشش کی مگر اُن کا سارا دھیان اُن اشیاء کی طرف تھا جو میرے حساب سے اپنے وزن اور پھیلاؤ کے باعث پہلے ہی اپنی جگہ پر ایک مسئلے کی شکل اختیار کر چکی تھیں، اس پر مستزاد یہ کہ زیادہ تر چیزیں عاشق کے دل کی طرح ٹوٹنے کا بہانہ ڈھونڈنے والی تھیں۔

گرینڈ بازار سے استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات تک تو ہم پانچ چھ منٹ میں پہنچ گئے مگر گاڑی پارک کرنے اور شعبہ اُردو تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا کہ وہاں سیکیورٹی خاصی سخت تھی اور ہمیں استقبالیہ سے آگے لے جانے والی خاتون غالباً کولمبس کی پیروکار تھی جو انڈیا کو ڈھونڈتے ہوئے امریکا کی طرف نکل گیا تھا۔ غیر اُردو دان ممالک کے ریڈیو کی اُردو سروس ہو یا وہاں کی یونیورسٹیوں کے اُردو شعبے، کم و بیش ہر جگہ سب کا حال ایک ہی جیسا ہے کہ پروڈیوسر ہو یا پروفیسر ایک ایک کمرے میں دو دو تین تین کی شکل میں حق ہمسائیگی ادا کرتے پائے جاتے ہیں سو یہاں بھی خلیل طوقار، جمال سویدان اور ایک اور سینئر استاد ایک ہی کمرے میں دفتر جمائے بیٹھے تھے البتہ اُن کے دلوں کی گنجائش اور استقبال کی گرمجوشی اور مسکراہٹوں کی وسعت ایسی تھی کہ تنگیٗ جا کا احساس سرے سے ہوا ہی نہیں اُن کے اسٹاف کے ساتھی اور طلبہ و طالبات ہم سے ملاقات کے لیے مسلسل آ جا رہے تھے۔ ’’الخدمت‘‘ کے نمایندہ عزیزی عمر فاروق بھی پہنچ گئے۔

TRT کی طرف سے برادرم فرقان حمید ایک پروفیشنل کیمرہ مین کے ساتھ کیل کانٹے سے لیس کھڑے تھے چنانچہ ایک عدد انٹرویو بھی کھڑے کھڑے نمٹ گیا، قونصل جنرل بلال پاشا اپنے ایک ساتھی قونصلر کے ساتھ آخر تک موجود رہے اور انھوں نے تقریب سے خطاب بھی کیا مگر اُن کی تقریر پر شعبے کے ہی ایک پروفیسرصاحب (جو انڈیا سے تعلق رکھتے تھے اور ترکی زبان بھی جانتے تھے ) کی ترجمانی اُس وقت بھاری پڑ گئی جب انھوں نے بلال پاشا کے تقریباً پندرہ جملوں کا ترجمہ تقریباً ڈیرھ جملے میں کچھ اس طرح سے کیا کہ مجھے شفیق الرحمن مرحوم کا سنایا ہوا ایک لطیفہ بار بار یاد آتا رہا جو کچھ یوں تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں ایک امریکی جرنیل نے جاپانی قیدیوں سے ملاقات کے دوران ایک طویل لطیفہ سنایا جس کا جاپانی مترجم نے ایک جملے میں ایسا ترجمہ کیا کہ سارے قیدی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ امریکی جرنیل نے حیرت سے پوچھا کہ تم نے اتنے لمبے لطیفے کا اس قدر مختصر ترجمہ کیسے کیا؟ اس پر مترجم نے جواب دیا کہ میں نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں صرف یہ کہا تھا کہ جنرل صاحب نے لطیفہ سنایا ہے ۔۔۔ ہنسو۔۔۔

ترجمے اور ترجمانی کی یہ صورتِ حال دیکھ کر عزیزی عمر فاروق نے منتظمین کو اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کیں کہ میرے بولنے کے دوران وہ مترجم کے فرائض انجام دے گا، اب یہ بات اور ہے کہ میرے شعر پڑھنے کے دوران اُس کی ترکی بھی تمام ہو گئی اور دوسرے تیسرے شعر پر اُس نے یہ کہہ کر ہاتھ اُٹھا دیے کہ شاعری ترجمے کی نہیں محسوس کرنے کی چیز ہے۔

تقریب کے اختتام پر تصویروں کا دور چلا اور پھر چلتا ہی چلا گیا کہ میرے سامنے رکھی چائے وہیں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی، تقریب کی نظامت جس نوجوان استاد نے کی اُس نے میری شاعری پر لکھا ہوا اپنا تھیسس بھی مجھے پیش کیا جو ترکی زبان میں ہے، سو اُس کے بارے میں فی الوقت صرف خوش گمانی سے ہی کام لیا جا سکتا ہے۔

خلیل نے اپنے یو ٹیوب چینل کے لیے بھی مجھ سے ایک انٹرویو کیا جو اگلے ہی دن فیس بک پر بھی آ گیا۔ اس اثنا میں ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی۔ میزبان ہمارے روکنے کے باوجود نہ صرف پارکنگ تک ہمارے ساتھ آئے بلکہ دیر تک ہاتھ ہی ہلاتے رہے اور یوں ایک محتاط اندازے کے مطابق اُن کے کپڑوں نے سوکھنے کے لیے خاصا زیادہ وقت لیا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے