گلگت بلتستان: نئی جہت کی ضرورت

گلگت بلتستان کی گزشتہ 72 سالوں کے دو پہلو ہیں، ایک وہ پہلو جو یہاں کے باسی اپنی زبانی بیان کرتے ہیں، اور ایک وہ پہلو جو متعلقہ اداروں یا حکام کی نظر میں ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان دونوں پہلوؤں کا نقطہ نگاہ یکساں اور برابر ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے دونوں پہلوؤں میں 180 زاویے کا فرق معلوم ہوتا ہے، اس فرق کو کم کرنے اور عالمی سطح پر اپنا موقف واضح کرنے کا کام یہاں کی مقامی قیادت اور باشعور افراد کا کام ہے لیکن جس ’عثمان بزدار‘ فارمولے پر عمل پیرا ہوکر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ شعور بڑھے گا اور مزید ارتقائی مراحل سے ہمیں گزرنا پڑے گا، ان مرحلوں کے انتظار میں پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور صورتحال بگڑتی معلوم ہورہی ہے۔آئے دن متحدہونے اور مشترکہ جدوجہد کرنے کے خوبصورت دعوؤں سے بہت دور نکل رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر انڈیا کی جانب سے حالیہ ناقابل یوٹرن اقدامات کے بعد گلگت بلتستان کس پوزیشن پر کھڑا ہے، اس پر گلگت بلتستان میں ابھی تک بحث نہیں ہوسکی ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی میں دو مرتبہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ کے لئے آواز اٹھائی گئی، دونوں مرتبہ رکن اسمبلی نواز خان ناجی نے یہ تجویز دی تھی۔ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ کے لئے بلایا گیا ایک اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوگیا جبکہ دوسرا اجلاس اعلان کے باوجود بلایا نہیں جاسکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز خان ناجی کی تجویز پر بلائے گئے پہلے اجلاس میں بذات خود نواز خان ناجی صاحب بھی شریک نہیں ہوئے اور 33کے ایوان میں 11 ممبران نہیں مل سکے جن کو بٹھاکر کشمیر کی صورتحال پر گفت و شنید کی جاسکے۔

اپنے حصے کی ازان اسی دوران بھی دی کہ صورتحال پر قوم کو ایک پیج پر لانے کی ضرورت ہے مگر انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ابھی تک ایک فرد یا ایک جماعت ایسی نہیں مل سکی ہے جو اس بات کا اعلان کرے کہ ہم اپنا ’اصولی موقف‘ سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہیں تاکہ کوئی اور بھی ا یک قدم آگے بڑھ کر مشترکہ اور متفقہ جدوجہد کو آگے لیکر جاسکے۔اس سے پہلے شدید طور پر پانچویں صوبے کا مقبول ترین نعرہ فلاپ ہوگیا ہے اور اسی پر اسمبلی نے ایک سے زائد قراردادیں منظور کی ہیں لیکن سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم، جس کی گنجائش موجود تھی، سے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے تنازعہ کشمیر کا حصہ قرار دیا۔ مرکزی یا ریاستی سطح پر تو صورتحال کسی حد تک واضح ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے البتہ اس سے قبل کے تحریری فیصلے پر اس بات کی جانب اشارہ دیا تھا کہ گلگت بلتستان کو آئینی ترمیم کے تحت سیٹ اپ اور اختیارات و حقوق مل دئے جاسکتے ہیں جس کا پورا دارو مدار وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی پر ہے۔

اب قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت کی صورتحال سب کے سامنے ہے، نہ کسی کو جیل بھیج کر واپس اپنے معمولات پر آرہے ہیں اور نہ ہی کسی کو ہسپتال بھیج کر خوش نظر آرہے ہیں بلکہ ابھی تک حکومت نہیں سنبھالا ہے اور انتخابی جلسوں پر زور دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی صورتحال کو تقابلی طور پر بڑے تناظر میں دیکھے تو قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت کا بڑا کردار نظر آتا ہے جو وہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔لیکن عالمی سطح پر گلگت بلتستان کا کیس جس نہج پر موجود ہے اور انڈیا کی جانب سے بار بار پروپیگنڈا کی موجودگی میں جی بی کے حوالے سے سوچ فکر کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے، نہ وفاقی حکومت نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی کوئی اور۔
ہم بھی ترے بیٹے ہیں زرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

حال ہی میں امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے ساؤتھ و سنٹرل ایشیاء ’الیس ویلز‘ نے سی پیک پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کردیا ہے جس کے مطابق انہوں نے ’ہدایت‘ کی ہے کہ پاکستان چائینہ سے امداد اور انفراسٹرکچر کی مدد لینے کے بجائے امریکہ کی جانب ہاتھ بڑھائے، امریکہ پاکستان کو زیادہ خوشحالی دے گا، امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری نے گوکہ اپنے روایتی سیاسی زبان کو دہرایا ہے لیکن جب بات امریکہ اور عالمی طاقتوں تک پہنچ جاتی ہے تو یقینا دھواں بھی کچھ وقت میں اٹھنے کے امکانات ہیں۔اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت کو پہلی مرتبہ سی پیک کی شکل میں باضابطہ مثبت شکل میں استعمال میں لایا گیا ہے، اب جب امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری نے سی پیک پر خدشات کااظہار کیا ہے تو یقینا گودار کا نمبر گلگت بلتستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہوگا۔

ادھر بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے اب تک طویل ترین کرفیو جاری رکھا ہوا ہے اور بھارت نے بڑی تعداد میں اپنے افواج کو پہرے پر رکھا ہوا ہے اور شہریوں کا قلع قمع کیا ہوا ہے، اس بنیاد پر بھی یہ تنازعہ کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھ رہا ہے، یہ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا بھی علم وقت آنے پر ہی ہوگا لیکن امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، اس ساری کہانی سے سازش کی بو آرہی ہے چونکہ ہم کسی کے خلاف سازش نہیں کرسکتے ہیں اس لئے سازش کی ’بو‘کو سنجیدہ لیا جانا چاہئے۔

گلگت بلتستان پورا اس وقت آنے والے انتخابات پر نظریں مرکوز کئے بیٹھا ہے، بدلتے بادلوں پر نظر کسی کی نہیں۔ مظلوم و محکوم قومیتوں میں جن اصطلاحات کا استعمال ہوتا ہے اس کو استعمال نہ کرتے ہوئے بھی حیرت ہورہی ہے کہ سیاسی نمائندے اور سیاسی حلقے اس صورتحال سے اپنی نظریں کیسے چرائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا ایمان ہے کہ اگر چپ چاپ بھی بیٹھ جائے تو اگلے انتخابات میں قابل حکومت اکثریت مل سکتی ہے، مسلم لیگ ن گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے من پسند حکمرانی کررہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا اس علاقے سے تعلق بھی گہرا ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ مذہبی جماعتوں کی صورتحال پر گفت و شنید کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا ان تینوں بڑی جماعتوں اور علاقائی و عالمی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے احباب سے اپیل ہے کہ اس فکر و آگہی کو نئی جہت دیں، اور نئی جہت کی ضرورت اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ پرانی سبھی ’جہتیں‘ ناکامی کا شکار ہوچکی ہیں۔اسی صورتحال نے ماضی میں گلگت بلتستان کے مقامی اور عالمی موقف اور نقطہ نگاہ میں 180 زاویہ کا فرق پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر گلگت بلتستان کے کیس کو ’کیس‘ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔
شاعر سے انتہائی معذت کے ساتھ عرض ہے کہ
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے