ہماری تاریخ کیوں نہ بدلی ۔۔۔؟

قوموں کی تاریخ میں کوئی لمحہ،کوئی دن ایسا آتاہے جب قوم اپناحال بدلنا چاہے توبدل سکتی ہے ،ماضی کی غلطیوں کا کفارہ بھی اداکرسکتی ہےاور مستقبل محفوظ بناناچاہے توبناسکتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بھی ایسے کچھ مواقع آئے جب ہم بحیثیت قوم کوئی بھی فیصلہ کرتے تو ہماری تاریخ بدل سکتی تھی۔ ہمارے یہاں مگر ایک الگ ریت ہے کہ ان فیصلہ کن گھڑیوں میں خوف ودہشت کامقابلہ کرنے کی بجاےذمہ دار زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ۔

1956 ء کا آئین ہمیں عطاہوا تو اس کو محض دوسال بھی نہ ہوئے تھے کہ فوجی آمر نے کوڑادان کو یہ عزت بخشی کہ وہ بھی صاحبِ آئین ہو گیا۔یہ وقت تھا کہ عوام اس انتہائی قدم کے خلاف اُٹھتی لیکن 10 سال تک ہم اسی ایک شخص کے بے مول غلام بنے رہے ۔ پھر حضرت یحیٰ خان ہم پر نگہبان مقرر ہوتے ہیں جو اکثر حالتِ وجدمیں رہتے کہ بہت پارسا تھے۔ ان کی طرف سے ہمیں یہ انعام ملا کہ ہم بنگالیوں سے "آزاد ” ہوگئے۔ذوالفقار علی بھٹو عوامی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں اورعوام کے حقِ حکمرانی کی راہ ہم وار ہوتی ہے ۔ دوسرا جرم ان سے یہ سرزد ہوتاہے کہ پاکستان کو مفصل متفقہ آئین عطاکرتے ہیں ۔ بعد کے گناہ اتنےخطرناک ہیں کہ پھانسی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

محترم ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی تو عوام کا ردِ عمل اگر اس وقت بھرپور انداز میں آتاتو عین ممکن تھا کہ ہماری تاریخ بدل جاتی ۔ لیکن ہمارے سیاسی راہ نماؤں میں ایسے جاں نثاروں کی کمی نھیں جن کی جان بچ جاے تو وہ انتہائی بے شرمی سےاپنے راہ نماکی جان لینے والوں کے پیچھے جاچھپتے ہیں ۔

سیاسی راہ نماؤں کی طرف سے عوامی حکمران کی اس ظالمانہ موت پر ماتم کی بجاے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اورمزاحمت کی بجائے مفاہمت کی راہ چُنی گئی ۔

قتل گاہوں سے علم چنےم کی روایت کے امین تو ہم نہ بن سکے لیکن خوف کےسبب جنازے وتدفین میں شرکت نہ کرنے کاچلن ضرور عام کیا۔ تماشہ یہ ہواکہ اہلِ نظر نے عُشاق کے قافلے کہیں آرام گاہوں سے ہی نکلتے دیکھے ۔ دہشت کے سایہ میں اس نئے چلن کارواج سانحہ کم اور المیہ زیادہ ہے مگر ہمیں تو غرض ہے فقط اقتدار کی کرسی سےسو اس المیہ کے سدِ باب کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ بھٹو مرحوم کے بعد کون ہوتاکہ اس عَلم کو بلند کرتا فقط ان کی ایک بیٹی کےسوا، لیکن کیا کریں کہ محترمہ کازیادہ وقت نواز شریف جیسوں کا مقابلہ کرتے گزرا اور عوام کے حقِ حکمرانی کاعلم کہیں قتل گاہ میں ہی چھوڑآئیں ۔

میاں نواز شریف میدان میں آتے ہیں تو وہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ہی نظر آتے ہیں کہ مقصد اقتدار تک رسائی رہااور اس کے لیے سیاسی حریف کے حریف سے جتنا فائدہ حاصل کیا جاسکتاتھا جائز سمجھا گیا۔دو ہی جماعتیں سیاسی منظر نامے پر رہیں اوردونوں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہیں سوائے اس عرصے کے جب اقتدار کسی تیسرے گروہ کے پاس ہو۔اس عرصے میں کہیں میثاقِ جمہوریت کا چاند سرِ آسماں دکھائی دیتا ہے مگر جوں ہی اس چاند کے بدر ہونے کے دن آئے تو ایک فریق کو لیاقت باغ میں ابدی نیند سُلادیاگیا۔ دوسرے فریق سے پھر چُوک ہوئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف محاذ آرائی میں پیش پیش رہا۔تاریخ بدلتی تو کیا بدہئیت ہوتی گئی اور ایک کے بعد دوسراوزیرِ اعظم گھر بھیج دیاگیا ۔

آصف علی زرداری اس سارے منظرنامے میں ایک اہم کردار کے حامل رہے اور پھر ان کے مجرم ہونے کے لیے یہی کافی ٹھہرا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو اپنی سرپرستی میں منظور کرایا۔ حسین حقانی نام کے ایک کردار کے ذریعے ان کو غدار ثابت کرنے کااہتمام کیا گیا۔ میاں نواز شریف ایک بار پھر 2013ء میں اقتدار میں آتے ہیں اور طاقت ور طبقے سے کچھ لے دے کرنے لگے تو دھرنوں کی تلوارسر پر لٹکادی گئی ۔ یہ وہ گھڑی تھی جب میاں صاحب کی پُشت پر تمام قومی سیاسی ومذہبی جماعتیں کھڑی تھیں ۔

سب نے یہی یقین دلایا کہ وہ بطور وزیر اعظم کوئی بھی فیصلہ کر لیں پارلیمان ان کا ساتھ دے گی کیوں کہ آپ بہر حال ایک منتخب وزیرِ اعظم ہیں ۔ہم کسی صورت ایسی طاقت کاساتھ نھیں دیں گے جو منتخب ایوان کی تذلیل کرے ۔لیکن میاں صاحب نے مناسب نہ سمجھا کہ کوئی فیصلہ ایسا کیا جائے جس سے ان کے اقتدار کو خطرہ ہو ۔یہاں تک پیپلز پارٹی اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود میاں صاحب کے ساتھ تھی لیکن چوں کہ میاں صاحب نے پارلیمان کی بجائے کسی تیسرے گروہ پر اعتبار کیا تو پیپلز پارٹی نے بھی مناسب جانا کہ میاں صاحب کے حریف سے ہی ہاتھ ملایاجائے ۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ میاں نوازشریف اپنی تمام تر احتیاط ومفاہمت کے باوجود کوچہِ جاناں میں معتبر مقام حاصل نہ کرپائے اور رسواکرکے نکالے گئے۔

خوش گمانوں نےاس پر یہ سمجھا کہ میاں صاحب کم از کم اب کچھ فیصلہ کریں اورامید ان لوگوں کو یہ تھی کہ پنجاب سے ایک باغی پیداہورہاہے ۔ جیل ہوئی تو میاں صاحب کو نیلسن منڈیلا کا پیرو کہاگیا، ان کی استقامت و بغاوت کی داستانیں گھڑی گئیں مگر نتیجہ یہی کہ خود بھی خاموش اور ان کی بیٹی بھی مصلحت کاشکار۔پچھلے دنوں ایک معروف کالم نگار نےمیاں صاحب کو راہِ عزیمت کا راہی قرار دیا اور تاریخ ِ اسلام کی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ ان کانام بھی جوڑا کہ یہ ہیں جورخصت کی بجائے عزیمت کی راہ چُنتے ہیں ۔ چند ہی روز گزرتے ہیں کہ عزیمت کا پیکر پھر جیل سے باہر ہے۔ ممنخ ہے کہ دوبارہ جیل بھیج دیے جائیں لیکن یہ کیسی عزیمت ہے کہ زبانیں گُنگ ہیں ،قدم رُکے ہوئے ہیں اورقوتِ فیصلہ معدوم ہے ۔

جس ملک میں عوام کے حقِ حکمرانی کے لیے لڑنے والوں کے وارث مصلحتوں اورذاتی مفادات کاشکار ہوجائیں وہاں تاریخ نھیں جغرافیہ بدلتاہے ۔ کچھ باتیں طے ہوچکی ہیں کہ سنجیدہ سیاسی راہ نماؤں کو کسی بھی طرح سیاسی منظرنامے سے ہٹایاجائے گا باوجود اس کے کہ بڑی سیاسی شخصیات مفاہمت ومصلحت کی راہ پر چل رہی ہیں ۔ راہ نمایانِ ملت سے التماس ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اِ دھر اُدھر کے موضوعات وعنوانات کی بجائے عوام کے حقِ حکمرانی کا نعرہِ مستانہ مسلسل بلند کیاجائے اور بھرپور اندازمیں کیاجائے ۔اس سے کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ تاریخ بدلنے کی کوشش کرنے والوں میں آپ کانام ضرور آئے گا۔

میاں نوازشریف صاحب اس وقت اہم کردار ہیں جو ذوالفقارعلی بھٹو جیسی صورت حال سے گزررہے ہیں اور یارلوگوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں ۔اُنہیں اپنی اس حیثیت کاادراک ہوناچاہیے اور اسی حیثیت کوسامنے رکھتے ہوئے ہی وہ تاریخ کادھارا عوام کے حق میں بدل سکتے ہیں ۔افسوس ہے کہ وہ منظر سے ہٹائے جانے کے واضح اشارے ملنے کے بعد بھی قوتِ ارادی سے محروم اورمصلحتوں کاشکارہیں ۔تعجب ہے ان لوگوں پر جو میاں صاحب کو نیلسن منڈیلا کاپیرو قرار دیتے ہیں جب کہ میاں صاحب تو بھٹو مرحوم کی پیروی کرنے کی صلاحیت بھی نھیں رکھتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے