ہے کوئی مجھے سننے والا!

گزشتہ کچھ دنوں سے مسلسل بارش تھی جس کے باعث گھر سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا، مجھے بارش بہت پسند ہے کیونکہ اس سے وابستہ کچھ حسین یادیں ہیں، جو بارش کے برستے ہی ماضی میں دھکیل دیتی ہیں اور موڈ خوشگوار کر دیتی ہیں۔

آج صبح سے موسم اچھا تھا، بارش تھم چکی تھی اور سورج کی حرارت جسم کو سکون دے رہی تھی، کچھ دیر دھوپ میں بیھٹنے کے بعد جلدی جلدی اپنے گھر کا کام سمیٹا کیونکہ میں آج واک کرنا چاہتی تھی، اِدھر کام ختم ہوا اُدھر میں واک کے لئے نکل پڑی۔

ہمارے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا پارک ہے جہاں میں اکثر جاتی ہوں، واک کرتی ہوں اور جب تھک جاتی ہوں تو بینچ پر بیٹھ جاتی ہوں اور ہرے بھرے درختوں، چہچہاتے پرندوں اور نیلے آسمان کو بہت دیر تک دیکھتی رہتی ہوں، جس سے مجھے بہت سکون ملتا ہے۔

آج بھی واک کے بعد جب میں بینچ پر بیٹھی اور ہمیشہ کی طرح قدرت کے حسین نظاروں میں گم ہو گئی ، اچانک مجھے کسی کی آواز سنائی دی، میں خیالوں کی دنیا سے باہر آئی تو میرے سامنے ایک خاتون کھڑی تھی اور مجھے کہنے لگی آپ رابعہ سید ہیں نا؟؟ میں نے حیرانگی میں سر ہلاتے ہی سوال داغ دیا کہ آپ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتی ہیں؟؟ میرے تعجب کو کم کرنے کی غرض سے اس نے فوراََ ہی اپنے بارے میں مجھے پوری تفصیل بتا دی۔

وہ خاتون میری کالج کی دوست عظمیٰ تھی، جو کہ شادی کے بعد اسلام آباد شفٹ ہو گئی تھی،اتنے سالوں بعد وہ بہت بدل چکی تھی ،اس کی جھیل جیسی آنکھوں کے گرد گہرےسیاہ حلقے تھے، اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا، اور وہ بہت دبلی پتلی بھی ہو گئی تھی، اس کی حالت غیر تھی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی صدمہ، کوئی دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، تو ایسی حالت میں بھلا میں اسے کیسے پہچانتی۔۔۔!

بہر حال ہم دونوں ایک دوسرے سے کئی منٹ تک بغل گیر رہے،اس سے مل کر سکون سا محسوس ہوا ، ہم دس سال بعد ملے تھے، اب دس سال کی باتیں گھنٹوں میں کہاں ختم ہو سکتی تھیں، اس لئے دریا کو کوزے میں بند کیا اپنی اور اس کی سرسری داستان ایک دوسرےسے شئیر کی، اس کی داستان بہت ہی المناک تھی میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔

عظمیٰ بہت اچھی، مخلص، ملنسار اور خوبرو لڑکی تھی، اس کی حالت اس کی داستان بتا رہی تھی، میں نے جب اس کی حالت کا سبب پوچھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں نے حوصلہ دیا اور اس کے آنسو پونچتے ہوئے اسے گلے لگایا تو وہ گلے لگتے ہی بچوں کی طرح زاروقطار رونے لگی۔

عظمیٰ کی شادی اسکے ماموں کے بیٹے سے ہوئی تھی، اور اس کا بدلے کا رشتہ تھا، جب ایک گھر میں لڑائی ہوتی تو دوسرے گھر میں بھی اس کی چنگاری پہنچ جاتی اور دونوں گھر اس آگ میں جلتے، پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل یہی صورتحال تھی، وہ مجھے کہنے لگی رابی اب برداشت دم توڑتی جا رہی ہے ، مجھے سننے والا ، سمجھنے والا کوئی نہیں ،کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی، نہ کوئی بات شئیر کر سکتی ہوں، اس آگ میں میرے معصوم بچے بھی جل رہے ہیں ان کا کیا قصور ہے بھلا۔۔۔!

رابی نا جانے یہ معاشرہ، یہ رسم ورواج کب بدلے گا!، کب تک ہم یہ سب سہتے رہیں گے! کون ہماری آواز، ہماری سسکیاں سنے گا؟ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔؟

جانتی ہو عورت کیا چاہتی ہے۔۔۔۔؟؟

عورت صرف توجہ، محبت چاہتی ہے اور یہ کہ اسے کوئی سننے والا ہو، کوئی تو ایسا ہو جو اس کے دل پر پڑے منوں بوجھ کو ہلکا کر سکے ،اسے توجہ سے سنے ، اسے دلاسہ دے، چاہے کچھ نہ کرے، مسئلے کا کوئی حل نہ بھی نکال سکے لیکن اسے سنے اور تسلی و دلاسے کے دو بول، بول دے، تو دل پر منوں بوجھ روئی کے گالوں کی طرح آسمان میں اڑتا ہوا غائب ہو جائے گا۔

عورت کی زندگی میں خاوند کا رشتہ سارے رشتوں پر بھاری ہوتا ہے ، اس لئے خاوند کو اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لینا چاہیئے اور ایک دوسرے کو سننا چاہیئے، مشکل وقت میں تسلی و دلاسہ دینا چاہیئے، یہ سب اس کی زندگی میں بہت معنی رکھتا ہے۔

اور جب خاوند اس کی بات نہیں سنتا، اس کے دل کا بوجھ نہیں ہلکا کرتا، اس کو تسلی و دلاسہ نہیں دیتا تو وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتا ہے، کیونکہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کسی نہ کسی سے اپنی بات، دکھ، درد، کیفیت، حالت، جذبات اور اپنے احساسات ضرور شیئر کرتی ہے، آپ اس کو نہیں سنیں گے تو وہ پھر اپنے دل کی بھڑاس اور بوجھ اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں، خالہ پھوپھی، چچا ماموں، دیورانی جیٹھانی، ساس، سسر، دوست احباب، آس پڑوس وغیرہ کسی سے بھی کر سکتی ہے، جس سےخاوند اسے انا کا مسئلہ سمجھے گا کہ اسکے گھر کےمعاملات کو باہر شیئر کیا گیا پے اور پھر اس سے دونوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور نوبت طلاق تک بھی آ سکتی ہے۔

ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے جس سے بڑے بڑے مسائل جنم لیتے ہیں، اگر ان پر ہم ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو لڑائی جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے۔

عظمیٰ نے مجھے اپنی تمام داستان سناتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور مجھے گلے لگاتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا کہ آج کتنے سالوں بعد میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے ، ورنہ وہ منوں بوجھ تلے دب کر مر جاتی کیونکہ وہ اس بوجھ کی وجہ سے ڈپریشن کی آخری اسٹیج پر پہنچ چکی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے