یوکلپٹس: ماہرین کے خدشات کے باوجود بڑے پیمانے پر ’ماحول دشمن‘ درخت اگانے کی تیاریاں

ماہرین کے خدشات، ماضی کے تجربات اور بار بار بار عائد کی جانے والی حکومتی پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر یوکلپٹس کے درخت لگائے گئے ہیں جبکہ اس کو اب پورے ملک میں لگانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

اس درخت کو پاکستان میں گوند، سفیدہ اور پختون علاقوں میں الائچی کے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن یوکلپٹس کا مقامی گوند یا سفیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے مقامی طور پر مذکورہ درخت سے مشابہت کی بنا پر اس کو یہ نام دیے گئے ہیں۔

فارسٹری اور ماحولیات کے ماہر اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر غلام اکبر نے بتایا کہ یوکلپٹس کو صرف مخصوص حالات اور مخصوص مقامات ہی پر لگا کر اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، جس میں سیم زدہ علاقے، ایسے علاقے جہاں پر تودے گرنے کا بہت زیادہ خطرہ ہو، جہاں قریب میں فصلیں کاشت نہ کی جاتی ہوں اور دیگر اقسام کے درخت نہ لگائے جاتے ہوں۔
‘بلین ٹری سونامی منصوبے میں بے قاعدگیوں کا انکشاف’


ان کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں پر حیاتیاتی تنوع موجود ہو وہاں پر بھی اس درخت کا لگایا جانا مناسب نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یوکلپٹس کے پتوں میں معمولی سا زہریلا پن ہوتا ہے جس وجہ سے پرندے وغیرہ اس علاقے میں جانے سے کتراتے ہیں اور اس پر گھونسلے نہیں بناتے، پانی کو بہت تیزی سے اپنی جانب کھینچتا ہے جس وجہ سے فصلوں اور باغات کو نقصاں پہنچاتا ہے۔’

ڈاکٹر غلام اکبر کے مطابق: ‘اگر اس کو سیم اور لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ کسی اور علاقے میں لگایا جائے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘یوکلپٹس لگانے سے گرین گولڈ کا خواب پوا نہیں ہو سکتا، گرین گولڈ کے لیے مقامی درختوں ہی پر انحصار کرنا ہوگا جو کہ ہمارے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔‘

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبۂ ماحولیات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر اسد عفران کی رائے میں بھی اگر یوکلپٹس کو مخصوص حالات اور مقامات کے علاوہ لگایا جائے تو یہ مقامی ماحولیاتی نظام کو نقصاں پہنچاتا ہے، اور اس کا براہِ راست نقصان انسانی معاشرے کو پہنچتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یوکلپٹس آسڑیلیا کا مقامی درخت ہے، اور وہاں پر بھی اسے انسانی آبادیوں اور جنگلات سے دور اور سیم والے علاقوں میں لگایا جاتا ہے۔ یوکلپٹس کی جڑیں زمین میں دور تک جاتی ہیں اور یہ زیر زمین پانی کے ذخائر اور چشموں کو نقصاں پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سیوریج کے نظام کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ مقامی درختوں کا دشمن ہے ان کو بڑھنے نہیں دیتا اور اس کی لکڑی بھی مخصوص قسم کے کاموں عمارتی شٹرنگ، ماچس کی تیلیاں بنانے کے علاوہ کسی اور کام نہیں آتی۔’

ڈاکٹر اسد عفران کا کہنا تھا کہ ‘قدرت نے اپنا نظام وضع کر رکھا ہے اور ہر درخت ہر علاقے کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ ہمارے علاقوں میں ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے بہتر درخت مقامی درخت ہی ہیں جو نہ صرف نفع بخش ہیں بلکہ ماحولیاتی نظام کے لیے بھی مناسب ہیں۔’

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تحت کل 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں، جن میں چیڑ (جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے) کے سب سے زیادہ یعنی 5.1 کروڑ درخت شامل ہیں جو کل لگائے گئے درختوں کا تقریباً 21 فیصد بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق چیڑ کی اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو اس کی کامیابی کا تناسب 50 فیصد ہوتا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر حیرت انگیز طور پر آسڑیلیا سے منگوائے گئے یوکلپٹس کے درخت ہیں جس کے 2.66 کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جو کل تعداد کا تقریباً 11 فیصد بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یوکلپٹس کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد ہے مگر یہ پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں کے لیے غیر موزوں اور ماحول دشمن درخت ہے۔

دستیاب سرکاری ڈیٹا کے مطابق مقامی طور پر انتہائی کار آمد اور ماحول دوست درخت بیری کا درخت (Zizyphus nummularia) ہے جس سے بیری کا شہد حاصل کیا جاتا ہے اور یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے علاوہ گرم علاقوں کا مقامی درخت ہے۔

اس کے درختوں کا تناسب صرف 0.7 فیصد ہے۔ اسی طرح مقامی چلغوزہ، املوک، ریٹا اور دیودار جیسے ماحول دوست اورنفع بخش درختوں کے لگائے جانے کا تناسب مجموعی طور پر اڑھائی فیصد بھی نہیں بنتا۔
صوبہ خیبر پختونخوا محکمہ جنگلات کے اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یوکلپٹس کو بہت جلد نتائج دینے کے دباؤ تلے لگایا گیا ہے کیونکہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ بلین سونامی کے نتائج بہت جلد عوام تک پہنچ جائیں اور یوکلپٹس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دیگر مقامی درختوں کی نسبت سے جلد توانا ہو جاتا ہے اور اس کی کامیابی کا تناسب بھی دیگر درختوں کے مقابلے میں دوگنا ہے کیونکہ اس کے پتوں کو کوئی بھی جانور اور مال مویشی منھ نہیں لگاتے۔

ماہرِ جنگلات سلمان رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکلپٹس کی ‘پیاس’ کا یہ عالم ہے کہ لکی مروت میں اسے گمبیلا دریا کے کنارے ہزاروں کی تعداد میں لگایا گیا تھا اور کچھ ہی عرصے بعد یہ دریا ہی سوکھ گیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی اپنی تحقیق کے مطابق یوکلپٹس کا درخت 24 گھنٹے کے اندر اندر ایک سو لیٹر پانی پی جاتا ہے، اور پاکستان جیسے پانی کی کمی کے شکار ملک کے لیے اس درخت کا وجود سر پر لٹکتی تلوار سے کم نہیں۔

وہ کہتے ہیں یوکلپٹس کا ہر درخت ایک ٹیوب ویل کی مانند ہے جو زمین سے پانی کھینچ کر ہمیں محروم کر رہا ہے۔

[pullquote]اس کے باوجود حکومتی ادارے یوکلپٹس پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟[/pullquote]

سلمان رشید کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکلپٹس بڑی تیزی سے اگتا ہے اور اسے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کیوں کہ مال مویشی بھی اسے منھ نہیں لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ محکموں کو جلد سے جلد نتائج سامنے لا کر بغیر محنت کے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے خود محکمۂ جنگلات کے حکام کو کہتے سنا ہے کہ ‘لکڑ دکھانی ہے جی۔’
واضح رہے کہ پنجاب اور بلوچستان میں یوکلپٹس پر سنہ 1980، 1990 اور 2000 کی دہائی کے آغاز میں تین مرتبہ ماحول دشمن قرار دے کر پابندی لگائی گئی تھی۔ مگر ہر مرتبہ یہ پابندی غیر اعلانیہ طور پر ختم کی گئی جس کی وجہ کبھی بھی نہیں بتائی گئی۔

سوات سے تعلق رکھنے والی سابق خاتون رکن قومی اسمبلی مسرت زیب کا دعویٰ ہے کہ جب سے در آمد شدہ یوکلپٹس کو سوات کے علاقوں میں لگایا گیا ہے اس وقت سے پانی کے قدرتی چشمے خشک ہونا شروع ہو چکے ہیں، اور پانی میں بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی ہے۔

بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ترجمان کا موقف ہے کہ یوکلپٹس زیادہ تر سیم والے علاقوں میں لگایا گیا ہے اور یہ جلد نتائج دینے والا درخت ہے جس کو مقامی کاشت کاروں اور زمینداروں کے مطالبے پر لگایا گیا ہے اور اس کے کوئی خاص نقصانات بھی نہیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے