ے بسی کے بعد توانا ہونے کے اسباب؟

کسی بھی ملک کی اندرونی سیاست درحقیقت وہاں کے معاشرے پر حاوی تضادات ورحجانات کا اظہار ہوتی ہے۔ جائز وجوہات کی بناء پر میڈیا مگر سیاسی جماعتوں اور خاص کر صف اوّل کے رہ نمائوں کے بیانا ت اور رویوں پر توجہ مرکوز رکھنے کو مجبور ہوتا ہے۔ اس توجہ کی وجہ سے سماجی رویوں میں ہوئی اتھل پتھل نظرانداز ہوجاتی ہے۔ایسی نظراندازی کے سبب اگر کوئی ’’انہونی‘‘ ہوجائے تو اسے سیلاب بلا کی مانند نازل ہوا’’حادثہ‘‘ سمجھ کر بھلادیا جاتا ہے۔

میری ناقص رائے میں رپورٹروں کے مقابلے میں کالم نگاروں کو سیاسی رہ نمائوں کی ذات اور بیانات کے مقابلے میں سماجی رویوں میں نمودار ہوتی تبدیلیوں پر زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ سماجی رویوں کو جاننے اور بیان کرنے کی لیکن مجھ جیسے رپورٹر سے کالم نگار ہوئے افراد کو تربیت میسر نہیں۔سماجی علوم کے ماہرین کی جانب سے ہوئی تحقیق سے رجوع کرنا ہوتا ہے اور وطنِ عزیز میں اس ضمن میں ہوا کام کتابوں کی صورت موجود نہیں ہے۔

ہمارے زیادہ تر ’’محققین‘‘ معاشیات کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ عموماََ بین الاقوامی اداروں کے لئے بہت ہی ٹیکنیکل زبان میں ’’ریسرچ پیپرز‘‘ لکھتے ہیں۔ان پیپرز کو لکھنے کے لئے Dataجمع کرکے اس کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ اس تجزیے سے اخذ ہوئے نتائج مجھ جیسے کم علم لوگوں کے ذہنی معیار سے بالاتر ہوتے ہیں۔

تحقیق کے باب میں اپنی کوتاہی کے ازالے کے لئے میں انٹرنیٹ کی بدولت عالمی سطح پر مشہور ہوئے کئی کالم نگاروں کو بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ایسے لوگوں کی تحریروں کی وجہ سے دریافت ہورہا ہے کہ Brexitاور امریکہ میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تازہ ترین سماجی رحجانات کو بہت لگن سے سمجھنے کی کوشش ہورہی ہے۔امریکہ اس تناظر میں دوسروں سے بازی لیتا نظر آرہا ہے۔

امریکی میڈیا کا غور سے جائزہ لیں تو جلد ہی احساس ہوجاتا ہے کہ وہاں نام نہاد ’’صحافتی غیر جانبداری‘‘ اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ بہت احتیاط سے لکھنے اور بولنے والے بھی ٹرمپ کے خلاف اپنے بغض یا اس کی حمایت میں موجود تعصب کو چھپا نہیں پاتے۔ صحافیوں میں ہوئی اس تقسیم کی وجہ سے کئی پڑھے لکھے افراد امریکہ کو اب ایک ’’قبائلی معاشرہ‘‘ قرار دے رہے ہیں جہاں ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے مابین خانہ جنگی والی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔

حال ہی میں سماجی علوم کے چند ماہرین نے باہم مل کر بہت بڑے پیمانے پر پورے امریکہ سے Dataاکٹھا کرکے اس کا تجزیہ کیا اور اہم ترین نتیجہ یہ اخذ کیا کہ امریکی معاشرے کا ٹھوس اعددوشمار کے حوالے سے اکثریتی اور نمایاں ترین حصہ Exhausted Majorityپرمشتمل ہے۔ لغوی ترجمہ اس ترکیب کا شاید ’’تھکی ہاری اکثریت‘‘ ہوگا۔ جس تناظر میں یہ ترکیب ایجاد ہوئی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں اسے ’’اکتائے ہوئے لوگ‘‘ کہوں گا کیونکہ ’’Exhaust‘‘ہوئی جس اکثریت کا ذکر ہورہا ہے وہ دراصل میڈیا میںٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جاری کھوکھلی مگر جارحانہ بحث سے اکتاچکی ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ جدید امریکہ میں معاشرے کو مثبت سمت پر رواں رکھنے کے لئے چند اہم ترین سوالات نمودار ہوچکے ہیں۔سطحی سیاسی تقسیم سے بالاترہوکر امریکہ کے سوچنے سمجھنے والوں کو ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات ڈھونڈنا ہوں گے۔

اکتائے ہوئے لوگوں کے بارے میں ہوئی اس تحقیق کے بارے میں چند کالم پڑھنے کے بعد فطری طورپر مجھے پاکستان ہی کے بارے میں سوچنا تھا۔ ہمارے ہاں بھی گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا پر عمران خان کے حامیوں یا ان کے مخالف ’’لفافہ‘‘ صحافیوں کا ذکر ہوئے چلاجارہا ہے۔

عمران خان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ بالآخر پاکستان کو ان کی صورت میں ایک ایسا سیاست دان مل گیا ہے جو ذاتی طورپر بہت ایمان دار ہے۔ کرپشن کا دشمن ہے۔ 22برس کی طویل جدوجہد کے بعد ’’باریاں‘‘ لینے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا ہے۔ اس پر اعتبار کیا جائے۔ اس کا ساتھ دیا جائے۔ عمران خان کے مخالفین کے ذہنوں پرحاوی بیانیہ اس سے قطعاََ مختلف ہے۔

وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے عمران خان ان کی نظر میں یوٹرن پہ یوٹرن لئے چلے جارہے ہیں۔ اقتدار ملتے ہی انہوں نے بہت اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ ملکی معیشت سنبھلنے تک وہ ’’بھیک مانگنے‘‘ کسی غیر ملک کا دورہ نہیں کریں گے۔اقتدار سنبھالنے سے قبل IMFسے قرضہ لینے کے بجائے انہوں نے خودکشی کو ترجیح دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔

اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد وہ سعودی عرب ایک نہیں دوبار جانے کو مجبور ہوے۔ 5روز چین میں بھی گزارے۔ دو مرتبہ UAEبھی جانا پڑا اور حال ہی میں دو روز ملائیشیاء میں صرف کرکے وطن لوٹے ہیں۔

اسد عمر اور ان کی وزارتIMFسے اپنے وزیر اعظم کے ’’کامیاب‘‘ دوروں کے باوجود 6سے 8ارب ڈالر کا پیکیج لینے کو بے تاب ہے۔IMFیہ رقم دینے کو تیار ہے مگر اس کے عوض وہ حکومت پاکستان سے جن اقدامات کا تقاضہ کررہی ہے ان کا اطلاق ووٹوں کی محتاج کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہیں۔لہذا لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے۔

ریگولر اور سوشل میڈیا میں عمران خان کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جاری کھوکھلی مگر جارحانہ لفظی جنگ نے یقینا ہمارے لوگوں کی اکثریت کو بھی بیزار کردیا ہوگا۔ ہمارے ہاں مناسب تحقیق کے بعد اس بیزاری کو ٹھوس اعدادوشمار کی صورت سامنے لانے کی جستجو مگر نظر نہیں آرہی۔ اکتائے ہوئے لوگوں کی خواہشات وترجیحات کو کماحقہ سمجھنے کی لہذا کوئی گنجائش نہیں۔

گزشتہ جمعہ کی صبح کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا۔اس کے چند گھنٹوں بعد اورکزئی میں دہشت گردوں نے ایک مسلک کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا۔ میڈیا میں سوال اٹھنا چاہیے تھے کہ نسلی اورمذہبی انتہاپسندی کی بنیاد پر دہشت گردی کی ایک نئی لہر تو شروع نہیں ہوگئی۔ ہمارے وزیر خارجہ نے جمعہ کی شام مگر ایک ٹویٹ کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ کو کرتارپور کی راہداری کی افتتاحی تقریب میں مدعو کرکے توجہ پاک-بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کی جانب موڑدی۔ ابھی ہم ان امکانات کا مناسب انداز میں جائزہ بھی نہیں لے پائے تھے کہ ایک مذہبی جماعت کے رہ نمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔

اس جماعت نے شاہد خاقان عباسی کی وفاقی اورشہباز شریف کی پنجاب حکومت کو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22دن تک پھیلا دھرنا دے کر بے بس دکھایا تھا۔ اس بے بسی کی بدولت نوازشریف پر لاہور کی جامعہ اشرفیہ میں جوتا اُچھالا گیا۔خواجہ آصف کے منہ پر سیالکوٹ میں سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان سب واقعات کے اثرات ہمیں 25جولائی 2018کے روز ہوئے عام انتخابا ت میں بھی دیکھنے کو ملے۔

غالب گماں تھا کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ مذکورہ جماعت کا رویہ آنے والے کچھ دنوں تک ’’دوستانہ‘‘ رہے گا۔ سپریم کورٹ سے مگر ایک فیصلہ آیا اور خان صاحب ریاستی رٹ بحال کرنے والی تقریر فرماکر چین روانہ ہوگئے۔ان کی عدم موجودگی میں اس جماعت کے رہ نمائوں سے مذاکرات کے بعد عمران خان کی بے بسی بھی عیاں ہوگئی۔

گزشتہ جمعہ کے بعد سے مگر عمران حکومت توانا اور گزشتہ حکومت کو دیوار سے لگانے والی جماعت بے بس نظر آ رہی ہے۔یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال پر غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔سوشل میڈیا پر اس ضمن میں عمران حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جو بحث جاری ہے وہ خلق خدا کی اکثریت کے ذہنوں پر حاوی بلھے شاہ والے ’’شک شبے‘‘ کی جانب بھرپور انداز میں اشارہ کررہے ہیں۔ کاش مجھے ان کا تجزیہ کرنے کی ہمت نصیب ہوتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے