2016 تک میں نے فیس بک سے کیاسیکھا؟

آج کل سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بک ہماری زندگی اور مصروفیات کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ہر چیز کے کچھ فائدے اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں، فیس بک کا بھی معاملہ کچھ یونہی سمجھئے، اگر حدود و قیود کے بغیر وقت بے وقت، ہر وقت اس مشغول رہا جائے تو اس سے بڑی کوئی نقصان دہ چیز نہیں۔ اور اگر اپنے اوقات کا خیال رکھتے ہوئے اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو کسی درجے میں فائدہ سے بھی خالی نہیں۔میں خود بھی 2012 سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں۔ اس دوران جو کچھ سیکھا اور جو جو تجربات حاصل ہوئے ،وہ نکات کی شکل میں پیشِ خدمت ہیں:

1. جتنا وقت ہم کیلئے فیس بک کو دیتے ہیں اگر اس کا چوتھائی بھی کتابوں کو دینے لگیں تو ہمارا علم، فیس بک سے حاصل شدہ سطحی علم سے نہ صرف کئی گنا بڑھ سکتا ہے، بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ اور عقل و شعور میں پختگی بھی پیدا ہوگی………….!اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں کہ فیس بک نے کتاب سے دور کیا ہے۔ حالانکہ ’’کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر‘‘۔ مطالعہ کی کمی کے دو لازمی نتیجے فکری تنزلی اور تحریری پسماندگی ہیں، اسلئے اپنی فکر اور تحریر کو مضبوط کرنے کیلئے مطالعہ ازحد ضروری ہے۔

2. ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے ، وقت بے وقت کی مصروفیات انسان کو خلفشارِ ذہنی کا شکار کر دیتی ہیں۔ فیس بک کے استعمال کیلئے بھی ایک وقت مخصوص کرنا لازم ہے۔ ورنہ تشتتِ ذہنی دیگر علمی و عملی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اور ویسے بھی فرصت کے لمحات اور عدمِ مشغولیت ان چیزوں میں سے ہے کہ جن کے معاملے میں اکثر لوگ خسارے میں ہیں(مفہوم ِحدیث) اسلئے جن لوگوں کی مصروفیات علمی ، تحقیقی یا تخلیقی قسم کی ہوں انہیں خود کو اس پابندی میں جکڑنا ضروری ہے۔جبکہ اکثر لوگ اس سے غافل ہیں۔’’من نکردم شما حذر بکنید‘‘

3. فیس بک پر جتنے بڑے بڑے لکھاری اور مشہور شخصیات موجود ہیں انہوں نے پہلے خوب مطالعہ کرکے فکری پختگی اور علمی رسوخ حاصل کیا اور اب ان دونوں بنیادوں پر تحریری میدانوں میں جوہر بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ اب قوتِ دلیل کے ساتھ صحیح یا غلط بات کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔جبکہ آج کا نوجوان مطالعہ کے بغیر ہی اس میدان میں اتر آیا ہے اور وہی مقام و مرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے جو انہیں حاصل ہے۔ اکثر اوقات غلط صحیح نظریات کے درمیان فرق بھی نہیں کر پاتا یا بہت جلد ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتا ہے جو بہت پہلے سے کتابوں میں لکھی جا چکی ہیں یا جن کے جواب دئیے جا چکے ہیں۔کسی نے سچ کہا تھا کہ’’ جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں…….!‘‘

4. فیس بک پر الحمد للہ بعض حضرات کی کوششوں سے ایک مثبت تبدیلی اور تعمیری ماحول پیدا ہورہا ہے۔ ایسے میں خود کو بھی اس میدان میں اہم اور فائدہ مند ثابت کرنے کیلئے تعمیری کام کرنا ضروری ہے۔گپ شپ یا طنزو مزاح کی ضرورت و افادیت اپنی جگہ ہے اور یہ بھی فیس بک کے استعمال کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہےاور میں ذاتی طور پر فیس بک کو حدود و قیود کے ساتھ تفریحِ ذہنی کا ہی ایک بامقصد مشغلہ سمجھتا ہوں۔تاہم ہمہ وقت غیر تعمیری سرگرمیاں، فالتو گپ شپ، اور بحث مباحثے، تعمیرِ شخصیت و عظمتِ کردار پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

5. جو لوگ عرصے سے فیس بک پر لکھ رہے ہیں اور بجا طور پر بہترین لکھ رہے ہیں، چاہے وہ خود سمجھتے ہیں یا لوگوں کا کہنا ہے، بہرحال اب انہیں بہر صورت کچھ آگے بڑھنا چاہئے۔ کئی نئی ویب سائٹس آگئی ہیں۔ ان کیلئے لکھیں، جو ویب سائٹس کیلئے پہلے سے لکھ رہے ہیں وہ اخبارات کی طرف متوجہ ہوں، کیونکہ’’ ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا‘‘۔ اس حوالے سے ان لوگوں کی مثال سامنے رکھی جائے جو اسی فیس بک کے ذریعے گوشۂ گمنامی سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔اگر شروع سے اب تک آپ وہی لائک یا کمنٹ کرنے والے یا دوسروں کی پوسٹس ہی شئیر کرنے والے ہیں تو یقیناً آپ خسارے میں ہیں۔عربی زبان کا مقولہ ہے کہ ’’جس کے دو دن ایک جیسے رہے وہ نقصان میں رہا۔‘‘ اکثر دیکھا گیا ہے اچھے خاصے صلاحیتوں والے نوجوان اپنی صلاحتیں برباد کر رہے ہیں۔ اپنے اندر چھپے ہوئے ادیب و قلم کار کو باہر نکالئے اس سے پہلے کہ وہ گھٹ کے مر جائے۔

6. مختار مسعود نے لکھا ہے کہ :’’رزق ہی نہیں بعض کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔“ میرے خیال میں اسے عمویت کے ساتھ یوں کہنا چاہئے کہ صرف کتابیں ہی نہیں ،بعض لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعلق سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسلئے دیکھتے رہنا چاہئے کہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ تعلق ہے‘‘(حدیث) پست عزائم ،منفی سوچ ،اور مایوس فکر کے حامل افراد کے ساتھ انسان خود بھی نچلے درجے پر آجاتا ہے۔ ’’اونچی رکھ پرواز کہ توں بنے عقاب‘‘۔

7. ہم اپنی شخصیت کی تعمیر میں ہم اتنے مصروف ہو جائیں کہ دوسروں کی غلطیاں اور بری باتیں بھی ہماری اپنی اصلاح کا سبب بن جائیں۔ سوشل میڈیا
سے ہم وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں جو حکیم لقمان جیسے عظیم دانشور نے لوگوں سے سیکھا تھا…ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ادب کہاں سے سیکھا۔ حکیم لقمان نے جواب دیا کہ میں نے ادب بے ادبوں سے سیکھا ہے۔ ان کا جو فعل مجھے برا محسوس ہوا میں نے اس کے کرنے سے پرہیز کیا ہے۔’’لطمۂ موج کم از سیلیٔ استاد نہیں‘‘۔

8. دوستی و دشمنی میں اعتدال لازم ہے۔فیس بک پر ہی بعض لوگ دشمنی میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ واپسی کے راستے مسدود کر بیٹھتے ہیں۔حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: اپنے دشمن سے دشمنی میں بھی اعتدال رکھو، ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی تمہارا دوست بنا جائے۔جبکہ یہی حال دوستی کا ہے۔ انباکس میں دوستی کے زعم میں وہ وہ باتیں کی جاتی ہیں کہ دوستی ختم ہونے کے بعد ان کا سامنا مشکل ہوجاتا ہے۔اسی حدیث کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ: اپنے دوست سے دوستی میں بھی اعتدال قائم رکھو،ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی تمہارا دشمن بن جائے۔دونوں قسم کی بیسیوں مثالیں اسکرین شارٹس کے سامنے آتی رہتی ہیں۔سو ’’اے عدم احتیاط لازم ہے۔لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں‘‘

9. شہرت کا خناس بڑا خطرناک قسم کا وائرس ہوتا ہے،اور بدقسمتی سے آجکل یہ بہت پھیلتا جارہا ہے، گندے قسم کے وائرس تو صرف دیوار تک آتے تھے اور پتہ بھی چل جاتا تھا مگر یہ سیدھا دل پر حملہ آور ہوتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ انسان کو خودرائی کی کسی ایک منزل پر رکنے نہیں دیتا،سوائے ان کے جو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور کسی کے فیضانِ نظر سے عقلِ سلیم رکھتے ہوں………………….!اس لئے خود کو سستی شہرت سے بچانا لازم ہے۔ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا پر ہماری موجودگی اور خدمات کہیں محض لوگوں کی تعریف سننے کیلئے تو نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو ’’نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے‘‘

10. سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے۔ لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہئے،اور اس کی وجہ سے اپنی حقیقی زندگی کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس سے باہر ایک حقیقی دنیا بھی ہے اور حوصلہ افزاء حد تک ہے….یہاں مشرف نے اپنے فینز کو دیکھ کر خود پر کرسیٔ صدارت پر بھی متمکن سمجھ لیا تھا………مگر حقیقت اس کے بر عکس نکلی۔بس اصول یہ ہے کہ یہاں نہ تو کسی کی شہرت سے متاثر ہونا چاہئے اور نہ اپنی عدمِ شہرت سے مایوس،ہر کسی کا میدان ہے۔عدمِ شہرت تو عافیت ہے لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ جسے تھوڑی شہرت ملی اس کا دماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے،اس لئے اپنے دل کا معائنہ کرتے رہنا لازم ہے۔

11. ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا کوئی عمل بھی نیک نیتی سے خالی نہ ہو۔سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی تفریحِ طبع کے ساتھ مقصدیت اور نیک نیتی بہرحال اہم چیز ہے۔ جب ہمارے مد مقابل لوگ باقاعدہ کسی نہ کسی مشن و مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔’’پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘‘۔اکثر لوگوں کو دیکھا ہے آتے تو کسی مقصد کے تحت ہیں لیکن استعمال دوسروں کے مقاصد میں ہو جاتے ہیں۔ نیک بات کا پھیلانا صدقہ ہے اور آپ کی طرف سے پوسٹ کی گئی نیک بات لمحوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ کر آپ کا دامن نیکیوں سے بھر سکتی ہے اور اسی طرح گناہوں کا معاملہ ہے۔

12. آج جبکہ دینی مدارس کے طلباء اور نوجوان فضلا دھڑا دھڑ سوشل میڈیا کا حصہ بن رہے ہیں اور وہاں زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و دانش سے متاثر بھی ہو رہے ہیں تو ان کی نظریاتی پختگی اور فکری اساس کا مضبوط ہونا ایک لازمی امر ہے، تاکہ وہ متاثر ہونے کے بجائے مؤثر بن سکیں، نیز وہ فکری گمراہیوں کا شکار ہونے کے بجائے دوسروں کی فکری اصلاح کرسکیں. مدعو بننے کے بجائے دین کے سچے داعی بن سکیں،کسی سے مرعوب ہونے کے بجائے فخر کے ساتھ اپنے نظریات کا دفاع کرسکیں۔ کسی سے دبنے کے بجائے دلیل کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑ سکیں۔ نفرت کی لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے حسنِ اخلاق کے ساتھ دوسروں کو قریب لاسکیں۔ دوسروں کو اپنے مشن و مقصد کے قریب لانے کی غرض سے ملاقاتیں بھی ہوں تو اپنے اصول قربان نہ ہوں۔اس حوالے سے اندر خود داری اور خود اعتمادی پیدا کرنا لازم ہے۔’’برخود نظر کشا زہتہی دامنی مرنج۔در سینۂ تو ماہِ تمامے نہادہ اند‘‘ اہلِ مدارس کو اس حوالے سے بطورِ خاص فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

13. سوائے معتبر مشہور شخصیات کے فیس بک کا اصول یہ ہے کہ ’’ایک ہاتھ دو، ایک ہاتھ لو‘‘ یا’’ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘۔اگر آپ کسی کی پوسٹ پر کمنٹ نہیں کرتے تو دوسرے بھی گھاس نہیں ڈالیں گے۔اسلئے یا تو اتنا وقت ہو کہ سب کو لائک اور کمنٹ کیا جاسکے یا پھر سمجھوتہ کر لیا جائے کہ میں لکھتا رہوں گا چاہے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔لکھتے رہنا کبھی فائدے سے خالی نہیں جاتا۔یہاں لکھی تحریریں بعد میں اکثر لوگوں کیلئے پورے پورے مضامین کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ میرے خیال میں دوسرا راستہ آسان ہے۔’’یابم او ر یا نیابم جسجوئے میکنم‘‘ اسی کو اختیار کرنے میں عافیت ہے۔ہوسکتا ہے کہ آپ بھی کبھی انہی بڑے لوگوں میں شامل ہو جائیں جن کے پاس غیر معروف یا چھوٹے لوگوں کی پوسٹ لائک کرنے کیلئے وقت ہی نہیں بچتا۔

14. سوشل میڈیا پر رہتے ہوئے ترجیحات کا تعین بہت لازم ہے۔ ورنہ بندہ اسی کو دنیا کی سب سے بڑی ترجیح سمجھ بیٹھتا ہے۔ اگر اس کے سبب آپ کے کام، ذمہ داریاں، مفوضہ امور یا خانگی زندگی متاثر ہورہی ہے تو آپ ان کاموں پر فوکس کریں کیونکہ وہ آپ کی زندگی میں اولین ترجیح کے متقاضی ہیں۔۔یقین مانیں فیس بک آپ کے بغیر بھی کئی دن تک چل سکتی ہے اور اسی طرح آپ بھی اس کے بان کئی سال خوشی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔اسے اپنے لئے لازم و ملزوم مت سمجھئے۔ اس میدان میں محنت کیجئے جس سے آپ کا رزق وابستہ ہے، ایسے لوگوں کیلئے فیس بک ذہنی تعیش کے سوا کچھ نہیں۔اکثر طالب علم بھائی اپنے بننے سنورنے اور صلاحتیں بنانے کی عمر پڑھائی وغیرہ کے باقی اہم کام چھوڑ کر اس سے چمٹے نظرآتے ہیں، کاش کہ وہ غور کرتے۔

15. گھر والوں کے ساتھ ، بوڑھے والدین یا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فیس بک پر مشغول رہنا ان کے حقوق کی بدتریں حق تلفی ہے۔ فیس بک باقی رہے گی لیکن بوڑھے والدین مہمان ہوتے ہیں، کسی بھی وقت رخصت ہو جائیں گے اور بچے بھی بڑے ہوجائیں گے۔ پھر کل کو ہم اور آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ بیٹا موبائل ہاتھ میں لئے گھنٹوں مشغول رہتا ہے لیکن بے اعتنائی سے جواب دینے کے علاوہ اس کے پاس آپ کے ساتھ بات کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ آج رابطے بڑھ گئے لیکن محبتیں کم ہوگئیں۔ایسا عین ممکن ہے کہ ایک شخص یہ اسٹیٹس اپڈیٹ کررہا ہوتا ہے کہ میرے 5000 فرینڈ ہوگئے جبکہ ان لمحات میں گھر والوں سے اس بات پر ناراضگی چل رہی ہو کہ گھر میں صحیح سے وقت نہیں دیتے۔

یہ جو کچھ میں نے محسوس کیا ہے وہی لکھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو کسی نکتے سے اختلاف بھی ہو۔اس نئے سال سے میں نے اپنے لئے بھی کچھ ضوابط مقرر کئے ہیں جن میں سرِ فہرست وقت کا تعین ہے کہ کب سے کب تک اس کا استعمال کیا جائے۔ اگر میرے سیکھے ہوئے ان اسباق سے کسی ایک شخص کا بھی بھلا ہوگیا تو سمجھوں گا کہ میں نے بھی فیس بک کا ایک مقصد حاصل کرلیا۔آئیے اپنا جائزہ لیں اور نیا سال شروع ہونے سے پہلے کوئی عزم کیجئے، کوئی وعدہ کیجئے اور پھر اس کی پاسداری کر کے دیکھئے۔ شاید کہ اگلا سال گذشتہ سے بہتر ثابت ہو۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے