کشمیر کا المیہ…!

14فروری کو بھارتی نیم فوجی پولیس ( سی پی آر ایف ) کے قافلے پر ہوئے خود کش بم حملے میں 46 فوجی مارے جا چکے ہیں ۔ ایک ویڈیو کے مطابق حملہ آور ایک قریبی گائوں کا رہائشی 22 سالہ نوجوان ‘ عادل ڈا ر ‘ ہے اور اُس نے اِس کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ یہ کشمیر میں1989ء سے شروع ہونے والی بغاوت میں سب سے جان لیوا حملہ ہے ۔ کارپوریٹ میڈیا کے بے پناہ شور میں کشمیریوں پر کئی نسلوںسے جاری قبضے اور جبر کے خلاف ابھرنے والی بغاوت کے کسی بھی تجزیے کو دبا دیا گیا ہے ۔ ایک مرتبہ پھر سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکمران طبقات دہشت گردی کے ایسے واقعات کو عام کشمیریوں پر جاری ظلم و استحصال کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ انفرادی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد ‘ جابر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے ہاتھو ں میں وہ اوزار بن جاتے ہیں‘ جن سے وہ لوگوں کو تقسیم اور عوامی بغاوتوں کو کچلنے کا کام لیتے ہیں ۔ بر صغیر کی ریاستیں کئی دہائیوں سے اپنے اپنے بنیاد پرستوں کو اپنے سٹریٹجک اور مالیاتی مفادات کے لیے پروان چڑھا رہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر گروپوں کو حقیقی قومی اور طبقاتی تحریکوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ۔

اپریل کے عام انتخابات کے پیش نظر اور کارپوریٹ میڈیا کے بھڑکائے میں نریندر مودی جنگجوانہ انداز میں ‘ ‘ منہ توڑ جواب ‘ ‘ دینے کی باتیں کر رہا ہے ۔ 2016ء میں ایک ایسے ہی حملے کے جواب میں مودی نے کنٹرول لائن کے پار ‘ سرجیکل سٹرائیک ‘ کا خوب شور اور واویلا مچایا تھا ۔ امکان ہے کہ آئندہ انتخابات میں ممکنہ شکست سے دوچار انتہائی دائیں بازو کی فرقہ پرست ‘ بھارتیہ جنتا پارٹی ‘ اس سے کہیں زیادہ شدید اقدام کی طرف جاسکتی ہے‘ جس سے خطے میں دو ایٹمی قوتوں کے درمیان بہت خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ چند برس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات شدید تنائو کا شکار ہیں ۔ دونوں طرف کے سیاسی پنڈت ہندوستان کے آنے والے انتخابات کے بعد ان تعلقات میں بہتری کی توقع کر رہے تھے ۔ جہاں پاکستانی ریاست تعلقات میں کچھ نرمی کے اشارے دے رہی تھی‘ وہیں مودی سرکارکا رویہ بہت ہٹ دھرم تھا ۔ شاید وہ دہشت گردی کے کسی ایسے ہی واقعے کے منتظر تھے ‘جس کی بنیاد پر وہ جنگجویانہ قوم پرستی اور ہندو مذہبی تعصب کو ابھار کر پچھلے پانچ برس میں محنت کشوں اور مجبور طبقات کے خلاف پالیسیوں اور مظالم کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں ۔ حملے کے بعد ہندوستان کا کارپوریٹ میڈیا اور سیاست دان فوراً ہی پاکستان پر الزام لگانے لگے ۔ تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے حملے کی مذمت کی ہے اور اسے پاکستانی ریاست سے جوڑنے کے اشاروں کو مسترد کیا ہے ۔

برصغیر کی تقسیم برطانوی سامراجیوں کا ایک جرم تھا‘ جس میں مقامی اشرافیہ اور سامراج کا پروردہ حکمران طبقہ بھی شامل تھا ۔ ستر برس بعداس خونی تقسیم کے زخم گل سڑ رہے ہیں ۔ بھارت اور پاکستان کی فوجوں نے کشمیر پرقبضہ کر کے اسے چیر دیا ۔ استصواب رائے کا وعدہ کبھی وفا نہ ہوا اور اقوام متحدہ کی قراردادیں فائلوں میں بند پڑی ہیں ۔ دونوں متحارب ریاستوں کے حکمران طبقات کشمیر کوسیاسی مقاصد اور اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے جنگجوانہ قوم پرستی کو ابھار کر داخلی بغاوتوں اورنوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلتے ہیں ۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان کشمیر کے عام لوگوں کا ہوا ہے ۔ ہر طرح کے جبرو استبداد کے باوجود انہیں دبایا نہیں جا سکا اور وہ بھارت کی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ کنٹرول لائن کے اس پار پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھی سماجی و معاشی اور سیاسی عذاب کچھ کم نہیں ہیں ۔ 2016ء میں کشمیر میں ابھرنے والی عوامی تحریک نے بھارتی ریاست اور اس کی دنیا کی پانچویں بڑی فوج کے جبر کو کھل کر للکارا ہے ۔ اس تحریک نے کارپوریٹ میڈیا کے اس تاثر کی بھی نفی کی ہے کہ اس تحریک کی بنیادیں مذہبی ہیں ۔ یہ تحریک مظلوم کشمیریوں کے عزم و حوصلے اور قومی ‘ سماجی‘ معاشی اور ثقافتی آزادی کے حصول کی جدوجہد پر مبنی ہے ۔
جریدے ‘ انڈین ایکسپریس ‘ کے مضمون ‘ ڈوبتی ہوئی وادی ‘ کے مطابق ‘ ‘ کشمیر میں ہندوستان کی ریاست مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔ شدید اور پر تشدد تنازعہ ایک ایسی صورتحال میں جا رہا ہے‘ جہاں ہر طرف موت کی خواہش ہے ۔ سکیورٹی فورسز کے کاپاس موت دینے کے سوا ‘ امن کا کوئی راستہ نہیں ۔ بھارتی قوم پرستی کی زیادہ دلچسپی حقیقی مسائل کے حل کی بجائے اپنی طاقت کے اظہار میں ہے ۔ ریڈیکل عسکریت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی جان کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ صورتحال یہ کہ ہماری طاقت کے ذریعے قابو کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے‘ ہمارے سیاسی ڈھانچے کھوکھلے ہیں اور کشمیر میں موت کی خواہش بڑھتی جارہی ہے ۔ کشمیر ایک اندھی کھائی کے دہانے پر ہے ‘ ‘ ۔

کشمیر کے عوام اور ہراول نوجوانوں کی مقامی تحریک کو بیرونی مداخلت اور دہشت گردی سے بہت نقصان پہنچا ہے ۔ ‘ ‘ مظلوموں کی داد رسی ‘ ‘ اور ‘ ‘ امن کی داعی ‘ ‘ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ناکامی کے بعد مسلح جدوجہد اس عوامی تحریک کا لازمی جز بن چکی ہے ۔ کچھ کشمیری سیاست دانوں نے تسلیم کیا ہے کہ عسکریت پسندی اب مقامی بنیادیں حاصل کر چکی ہے اور اس حملے کے محرکات میں بی جے پی کی جابرانہ پالیسیوں کو بھی شمار کیا ہے ۔ کشمیر کے سب سے زیادہ بھارت نواز سیاست دان شیخ فاروق عبداللہ نے بھی سکیورٹی میں کوتاہیوں اور عوامی بغاوت کی شدت میں پاکستان کی مداخلت کو کھل کر مسترد کیا ہے ۔

بھارت اور پاکستان کے مابین کئی جنگیں اس مسئلے کو حل نہیں کر سکیں‘ مذکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں شروع ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں ۔ نوجوانوں اور عوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ خطے کی دو بڑی طاقتیں اور ان کے آقا در حقیقت اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ انہیں اس دشمنی کی اشد ضرورت ہے اور یہ ان کی سفارتی بازیگری کا اہم حصہ بن چکی ہے ۔ اس دشمنی کے ذریعے علاقے کی افواج کے حکام کی مراعات‘ سماجی مرتبہ اور سیاسی بالادستی برقرار ہے اور وہ سامراجی آقائوں کی فوجی صنعتوں سے خریدے جانے والے ساز و سامان میں بے پناہ کمیشن اور کک بیک بنا رہے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر حکمران اشرافیہ اس مسئلے کے ذریعے ‘ حالت جنگ ‘ پیدا کر کے قومی جنون ابھارتے ہیں ‘ جبکہ وہ ایک حقیقی جنگ نہیں لڑ سکتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ حکمران جنگ کرسکتے ہیں نہ ہی پائیدار امن قائم رکھ سکتے ہیں ۔ جنگ اور امن کے ناٹک میں مسئلہ کشمیر کی آنچ کبھی مدھم اور کبھی تیز کر دی جاتی ہے ۔ اس سب کے ذریعے عوام کے حقیقی مسائل کی جانب سے توجہ ہٹائی جاتی ہے ۔ قوم پرست جنون میں طبقاتی جدوجہد کو خاموش اورزائل کر کے اپنی حکمرانی کو طول دیا جاتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ جبر کئی نسلوں سے اس خطے کو اذیت دیے جا رہا ہے‘ جہاں دنیامیں سب سے زیادہ غربت مرتکز ہے ۔ کشمیر کے عوام پر بے پناہ خونریزی‘ مظالم اور جبر روا رکھا گیا ہے‘ اس کے باوجودانہوں نے بغاوتیں کی ہیں اور ان کا عزم و ہمت بر صغیر کے ڈیڑھ ارب نوجوانوں اور محروم طبقات کے لیے حوصلے کا باعث اور مشعل راہ ہے ۔ خطے کے یہی نوجوان اور محنت کش طبقہ اس ظلم اور جبر کے نظام کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد میںان کے حقیقی ساتھی ہیں ۔ مکمل جنگ کا زیادہ امکان نہیں ہیں‘ لیکن مودی سرکار ماضی کی نسبت زیادہ گہری اور شدید کاروائی کر سکتی ہے اور اس دہشت گردی کو منافرت‘ دھونس‘ لوٹ مار اور جنگ کے بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہے ۔ لینن نے کہا تھا کہ ”جنگ ہولناک ہے‘ لیکن یہ ہولناک حد تک منافع بخش ہوتی ہے ‘ ‘ ۔

کشمیر کی عوامی تحریک پر اس دہشت گرد حملے کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ‘ لیکن کشمیری عوام کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی ۔ وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے ۔ جلد ہی یہ پھر سے ابھرے گی ۔ صرف بنیادی فریضہ اس جدوجہد کو سارے بر صغیرمیں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں سے جوڑنا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے