بلوچستان: نیا وزیراعلیٰ ، نئی روایات کے ساتھ

پاکستان میں ایک انوکھی جمہوریت ہے
جس کی آب یاری فیوڈل ازم کرتا
جبکہ جمہوریت فیوڈل ازم کی قاتل سمجھی جاتی ہے
پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو نہ جمہوریت سے لینا دینا ہے اور نہ ہی آمریت سے
اس لاتعلقی کی بنیادی وجہ مختلف نظام ہائے حکومت سے لاعلمی ہے

پاکستان میں جس طرح جمہوریت غیر خالص یے ویسے ہی یہاں کی آمریتیں بھی مصر۔۔۔عراق۔۔۔کی طرح خالص نہیں تھیں اس لئے یہاں کے عوام نہ جمہوریت کی چاشنی سے واقف ہیں اور نہ ہی آمریت کی تلخی سے

پاکستان میں بدترین آمروں کے دور میں بھی عام شہریوں کے ساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھا گیا جو سلوک صدام حسین ۔حسنی مبارک نے روا رکھا

اسی طر ح جمہوری ادوا میں عام شہریوں کو وہ مراعات نہیں ملیں جو بد ترین جمہوری ممالک اپنے عام شہریوں کے لئے مہیا کرتے ہیں
یہا جس انداز میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور جمہوری جماعتیں جس معیار کو مد نظر رکھ کر نمائندوں کو ٹکت دیتی ہیں ہم سب کے سامنے ہے

یہ نمائندے کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچنے کے بعد ان کی سب سے پہلی تر جیح یہ ہوتی ہے کہ
انتخابات میں لگائے گئے پیسے کا نقصان سود سمیت پورا کیا جائے
اس چکر میں پانچ سال گزار دیتے ہیں
پھر اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں
ان بے چاروں کو عوامی خدمت کے لئے صرف ڈھائی مہینے ہی ملتے ہیں

خدمت کا مطلب ہے چار سال نو ماہ عوام کی نظر سے عنقا ہونے کے بعد اگلے پانچ سال پھر بھر پور انداز میں لوٹ کھسوٹ کی غرض سے عوام کو اپنی زیارت سے شرفیاب کرتے ہیں اور عوام بھی اس دیدار کے عوض اپنے ان مسکین نمائندوں کو ووت دیکر منتخب کرتے ہیں

بلوچستان میں عوام کے منتخب نمائندے راتوں رات وفاداریاں تبدیل کر نے میں مشہور ہیں عوام کو بھی یہ غرض نہیں کہ
یہ نمائندے رات کس کے ساتھ ہوتے ہیں اور دن میں کس کے ساتھ انہیں یقین ہے کہ یہ قافلہ پی پی پی میں رہے یا پی ایم ایل (ن) میں یا پی ایم ایل(ق) میں ،،عوام کی نظر اس چیز پر مرکوز ہوتی ہے کہ ان کے دکھ درد میں کون شریک ہوتا ہے عوام کو اس چیز سے بھی غرض نہیں کہکس نمائندے نے کتنے لاکھ کتنے ہزار یا کتنے سو ووٹ لئے ہیں .

لہذا بلوچستان کے نواب وزیر اعلی کی باعزت رخصتی کے بعد
ایک چند سو ووٹ حاصل کر کے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کو نیا وزیر اعلی منتخب کیا گیا
جس انداز میں انہیں وزیر اعلی منتخب کیا گیا
کیا وہ انداز جمہوری ہے یا نہیں
اس سے عوام کو غرض نہیں
لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ شخص کس طرح سے عوام کی خدمت کرتا ہے عوام اس چیز کو دیکھتے ہیں
نئے نوجوان وزیر اعلی نےچند ایسے کام کئے جن کی تعریف کی باز گشت آسانی سے سنائی دے رہی ہے
(1) انہوں نے روایتی پروٹوکول کو مسترد کردیا
پروٹوکول سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوتی تھی اب وزیر اعلی صاحب آتے جاتے ہیں مگر شہریوں کو ان کی امد ورفت سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ، یہ ایک مثبت اقدام ہے جس کی تعریف کرنی چاہیئے .

( 2 )کل وزیر اعلی نے اچانک جیل کا دورہ کیا یہ دورہ چاہے جناب مجید اچکزئی کے مشورے سے ہی کیا ہو احسن اقدام ہے اس کے بعد اچانک صدر تھانہ میں پہنچ کر روزنامچہ ملاحظہ کرتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ ایک غریب رکشہ چلانے والا چند ہزار پیسے ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے حوالات میں بند تھا ،وزیر اعلی صاحب اپنی جیب سے پیسے ادا کرکے انہیں رہا کرتے ہیں ،یہ بھی انتہائی مستحسن اقدام ہے ،جس کی تعریف ہونی چاہیے .

اگر یہی کام سابق وزیراعلی صاحب بھی کرتے ان کی بھی تعریف کی جاتی مگر انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اس کی وجوہات کا کم از کم مجھے علم نہیں ،

موجودہ وزیر اعلی کے ان چند چھوٹے چھوٹے اقدامات سے لوگ خوش ہورہے ہیں اور انہی رویوں کے سبب لوگوں کا جمہوری حکومتوں پر اعتماد بڑھنے لگتا ہے اور غریبوں کے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں اور خدا ایسے لوگوں کی دعائیں فوراسنتا ہے جس کے اگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا ان اقدامات کو میں چھوٹا اس لئے کہا چونکہ ایک وزیر اعلی کے جو بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں ان اختیارات کی نسبت یہ اقدامات بہت ہی چھوتے ہیں
اب دیکھنا یہ کہ صوبہ میں بتیس 32 ہزار خالی اسامیاں ہیں ان خالی اسامیوں میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کا کام ہی نئے وزیر اعلی کے لئے سب سے بڑا چلنج ہے ، اگر اس چلنج سے نبرد آزما ہوکر میرٹ کی بنیاد پر 32 یزار اسامیوں کو بھرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب تو بزنجو صاحب کانام بلوچستان کی تاریخ میں طلائی حروف سے لکھا جائے گا اور یہ منفرد وزیر اعلی کہلا ئے گا .

اگر یہ بھی اپنے اسلاف کی طرح صرف تھانہ دار اے سی ڈی سی پر رعب جھاڑ تے رہے اور کرپشن کی جڑ کو چھو نے سے اجتنا ب کیا تو اسے بھی عوام فریبی کا نام دیا جائے گا اور ہم بھی کہیں گے کہ جس نے چند سو ووٹ لئے اور راتوں رات وزیر اعلی بن گئے وہ کس طرح ایسے مشکل کام کرنے کی ہمت کرسکتا ہے لہذا نیاوزیر اعلی صاحب بھی نوک قلم کے زخم سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے .
نیاوزیر اعلی نوجوان بھی ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہم ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں کہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام پیدا کرے اور لوگ بھی انہیں اچھے القاب سے یاد کرنے پر مجبور ہو جائیں
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
امید پر ہی دنیا قائم ہے
شاید اس انوکھی جمہوریت کی کوکھ سے کوئی انو کھا وزیر اعلی جنم لے
اللہ کرے ایسا ہی ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے