BISPسے مستفید ہونیوالے ’غریب آفیسران‘

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام وفاقی حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لئے شروع کیا جانے والا ایک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 2008میں بینظیر بھٹو شہید سے منسوب کرکے شروع کردیا تھا۔ اس منصوبے کا سالانہ بجٹ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پاکستان کا سب سے بڑا سوشل منصوبہ کہا جاتا ہے جس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد پچاس لاکھ سے زائدہے۔اس منصوبے کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ اور معاشرے کے پسماندہ طبقات بالخصوص خواتین کی مضبوطی اور استحکام ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مختلف زیلی منصوبے بھی چل رہے ہیں جن میں ایک منصوبہ وسیلہ تعلیم ہے، اس پروگرام کے تحت چار سے بارہ سال تک کے بچوں کی تعلیم کے لئے مالی امداد دی جاتی ہے، یہ بچے بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے بچے ہیں۔

جب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اجراء کیا گیا تو ابتدائی طور پر اس کے لئے مخصوص فارم بنائے گئے تھے جن کی تقسیم کی زمہ داری سیاسی کارکنوں کی تھی جن میں پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر جماعتوں کے کارکنان بھی اپنے اثر رسوخ کے زریعے شامل حال تھے۔ لیکن جب یہ صورتحال صاف ستھری سیاسی رشوت کی شکل اختیار کرگئی تو وفاقی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کی پہچان کے لئے ملکی سطح پر غربت کی شرح اور غربت کے حوالے سے سروے کرایا تھا۔یہ سروے مقامی سطح پر مختلف سماجی تنظیموں کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔ اس سروے سے قبل گلگت بلتستان میں بڑی کھینچاتانی جاری تھی کہ وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت آچکی تھی جبکہ گلگت بلتستان (اس وقت ناردرن ایریا تھا) میں ابھی تک مسلم لیگ ق نامی جماعت کا طوطی بولتا تھا، یوں ہر دو اطراف سے ان فارموں کے حصول اور تقسیم کے لئے زبردست جدوجہد جاری تھی۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غربت کی شرح کے حوالے سے کرایا گیا سروے پاکستان کی تاریخ میں پہلا سروے ہے، اس سے قبل عالمی معیار کا ایسا کوئی سروے نہیں کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے سروے جدید انداز میں نہیں تھا بلکہ لوگوں سے زبانی کلامی انٹرویو کے طور پر منعقد کیا گیا۔ اس انٹرویو کو پیپر اینڈ پین بیسڈ پرسنل انٹرویو کہا جاتا ہے۔ انٹرویو کے زریعے منعقد کئے گئے اس سروے میں گھر میں نفری، تعلیم، ملازمت یا روزگار، معذور افراد، اور اثاثہ جات جیسے چیزوں پر خصوصی توجہ دی گئی اور طریقہ کار کے تحت ان کے ’سکور‘وضع کئے گئے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جب سے ’مستحقین‘ میں رقومات تقسیم ہونا شروع ہوئے تو ہزاروں ایسے افراد آسمان تکتے رہ گئے جو حقیقی طور پر مستحق تھے۔ جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے ایسے سینکڑوں لوگ منظر عام پر آگئے، جو کسی بھی زاویہ سے غریب نہیں تھے سوائے سروے کے۔

گلگت بسین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں پر ایک اچھے عہدے کے سرکاری ملازم کے گھر کے ساتھ ہی ایک بیوہ مقیم تھی اور ان کی مالی صورتحال بھی انتہائی خراب تھی، لیکن جب سروے منعقد کرایا گیا تو اس سروے کے تحت وہ بیوہ خاتون ’غریب‘ ثابت نہیں ہوسکی جس کی وجہ مبینہ طور پر یہی ہے کہ ’رحمدل‘ سرکاری ملازم نے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا تھا۔

چونکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے منعقد کرایا گیا سروے پاکستان کی تاریخ کا واحد سروے تھا جس کے تحت غربت کی شرح اور اعشاریے معلوم کئے گئے تھے اور یہ سروے بذات خود بہت بڑا منصوبہ تھا جسے ہر ماہ یا ہر سال منعقد نہیں کرایا جاسکتا تھا اس لئے اس سروے پر اٹھنے والے اعتراضات کو حکومت نے مسترد کردیااور اسی سروے کی بنیاد پر صحت حفاظت کارڈجیسے منصوبے بھی شروع کئے گئے، اس منصوبے سے بھی کوئی اور مستفید نہیں ہوسکا سوائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے البتہ اس ضمن میں ایک تاریخ ہی رقم کردی کہ انہوں نے ’غریبوں‘ کی فہرست میں چھپے کروڑ پتی آفیسران کا نام ڈھونڈنکالا۔ وفاقی حکومت نے ثانیہ نشتر کو اس منصوبے کا چیئرپرسن مقرر کرنے کے ساتھ ہی یقینا یہ ہدایات بھی دئے ہونگے کہ غریبوں کے رقم سے ہاتھ صاف کرنے والے سفید کالروں کو بے نقاب کریں۔ یوں وفاقی حکومت نے ایسے بھیڑیوں کی نشاندہی کردی جو ماہانہ لاکھوں روپے کمانے کے باوجود غریب لوگوں کے ’چند ہزار‘ روپوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اس ضمن میں سب سے پہلے مستحقین کے مالی امداد وصول کرنے کے طریقہ کار کو بائیو میٹرک نظام سے گزارا جس کے بعد فارم 45سمیت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے۔ جس کے مطابق 2543افراد ایسے ہیں جو بڑی ڈھٹائی اور کمال بے شرمی سے غریبوں کے مال سے ہاتھ صاف کررہے ہیں اور خود وہ کم از کم گریڈ 17 میں تعینات ہیں۔غریبوں میں شامل گریڈ 17کے 48آفیسران وفاق میں، 523آفیسران بلوچستان، 88آفیسران پنجاب، 288آفیسران خیبرپختونخواہ،449 سندھ، 17آزاد کشمیر، 27 گلگت بلتستان جبکہ 6 آفیسران خود بی آئی ا یس پی کے ملازم ہیں۔ اسی طرح گریڈ 18کے غریبوں میں 10کا تعلق وفاق، 90کا تعلق بلوچستان، 45 پنجاب، 94خیبرپختونخواہ، 342سندھ، 19 گلگت بلتستان اور ایک ریلوے آفیسر ہے۔ گریڈ 19کے غریبوں میں 1وفاق، 99بلوچستان، 4 پنجاب، 19خیبرپختونخواہ، 302سندھ، 2آزاد کشمیر اور 2کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ گریڈ 20کے ان مستحقین میں 2وفاق، 27بلوچستان، 2 خیبرپختونخواہ، 29سندھ، اور ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جبکہ گریڈ 21کے بھی تین آفیسران غریبوں کی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں ایک وفاق سے اوردو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ان غریبوں کی غربت کو ہوا میں اڑاکر وفاقی حکومت نے ایک احسان کردیا ہے، یہ محض چند چہرے نہیں ہیں بلکہ وہ معاشرتی رویے ہیں جہاں پر غریبوں اور کم آمدنی والوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ٹھیک ہے کہ سروے میں غلطیاں بہت ہوئی ہیں اور ممکن ہے کسی کو اندرون خانہ ہی سروے سے غریب ہونے والے جوابات ملے ہوں گے لیکن کیا ضمیر نام کی کوئی شے نہیں ہے جو دستک دیکر کہے کہ جناب ان چند ہزار روپوں سے کسی غریب کا چولہا جل سکتا ہے جسے آپ پھونک کر اڑارہے ہیں،یقینا نہیں۔

وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو احکامات دئے ہیں کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔ گلگت بلتستان سے وزیراعلیٰ نے ایک بیان جاری کرکے اس امر کی تصدیق کردی کہ ان کے پاس نام آگئے ہیں اور ریکوری شروع کردی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ ان لوگوں نے بینک کو نہیں لوٹا ہے کہ ریکوری شروع کی جائے، ان لوگوں نے سماج کو لوٹا ہے ان کو بے نقاب کرنا ہوگا، ورنہ سیاسی اثر رسوخ کے زریعے محفوظ راستہ دیکر صیغہ راز میں رکھنے کو عوام بھی ’شریک جرم‘ٹھرائیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے