گلگت ماحولیاتی تبدیلی کے دہانے پر

ماحولیاتی صحافت کے عنوان سے تین روزہ تربیتی ورکشاپ چند روز قبل مقامی ہوٹل میں اختتام پذیر ہوا۔ اس تربیتی کا انعقاد ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان نے آئی سی موڈ کے تعاون سے کیا تھا۔ ورکشاپ میں پاکستان کے معروف صحافی سبوخ سید اور شیراز حسین نے خصوصی شرکت کی تھی، گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تغیرات کے اعشاریوں پر گفتگو شروع ہوئی تو دونوں مہمان ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور کہا کہ ہم تو سیر و سیاحت کے لئے ’گلگت بلتستان‘ کا انتخاب کرتے ہیں جب یہاں پر بھی ایسی حالت ہے تو پھر ہم کہاں جائیں؟

گلگت بلتستان اپنے سیاحتی علاقوں کی وجہ سے پورے ملک میں منفرد مقام رکھتا ہے، یہاں پر قدیم ثقافتی باقیات بھی نظر آتے ہیں اور صدیوں پرانے آثار اب بھی سلامت ہیں۔ سال میں چاروں موسم یہاں پر پائے جاتے ہیں اور زراعت کے شعبے میں بھی اس علاقے کی استعداد کار خاصی ہے۔ بیک وقت صحرا، پہاڑ، دریا، میدان، گلیشیئر، جھیل، نالے، بین الاقوامی سرحدات، تاریخی درے، پہاڑی سلسلے، جنگلات، جنگلی حیات، چرند پرند سے یہ علاقہ مالا مال ہے اور پاکستان میں ماتھے کی جھومر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہ صفات اس علاقے میں سیاحت کے مواقعوں میں اضافہ کرتے ہیں، اور یہاں پر آنے والے سیاحوں کی تعداد گزشتہ دو سالوں میں مقامی آبادی سے زیادہ رہی ہے۔

لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، مہنگائی، بیروزگاری اور بالائی علاقوں میں مشکل ترین زندگی نے اس علاقے بالخصوص شہری علاقوں میں بڑی تبدیلیاں رونما کردی ہیں جن کا اثر نہ صرف شہروں پر پڑرہا ہے بلکہ مندرجہ بالا سبھی صفات ان سے متاثر ہورہے ہیں۔ تبدیلی کے اس سفر میں سب سے زیادہ اثرات شہر گلگت پر پڑے ہیں، کیونکہ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقعوں کی تلاش میں اندرون جی بی سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے بھی لوگوں کا زیادہ تر رجحان گلگت کی طرف رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے زمین تنگ کردی ہے اور وسائل محدود ہوتے جارہے ہیں، گلگت شہر میں ایک کلومیٹر کا سفر گاڑی میں طے کرنے کے لئے وقت کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ لگتا ہے، بلکہ پختہ سڑکوں کے باوجود گاڑیوں کا اتنا رش ہے کہ ایمرجنسی مریض کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دینی پڑتی ہیں۔ بے تحاشا گاڑیوں کا بلاواسطہ اثر قدرتی ماحول پر پڑرہا ہے۔ گاڑی کا دھواں، سروس سٹیشن کا گندا پانی، ورکشاپ میں جلتا تیل اور مٹی میں رستے کیمیائی مواد نے صاف ہوا سے لیکر صاف پانی سبھی کو متاثر کررکھا ہے۔

آج کے گلگت اور چند برس قبل کے گلگت میں بڑی آسانی سے فرق محسوس کیا جاسکتا ہے، گزشتہ چند برسوں کے دوران ہی گلگت نے دہائیوں اور عشروں کی تبدیلی محسوس کرلی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کے قدرتی وسائل کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ رواں برس جون جولائی کے مہینے میں گرمی کی شدت اسلام آباد سمیت دیگر کئی شہروں سے زیادہ محسوس کی گئی۔ گلگت شہر کے آس پاس کسی بھی اونچی جگہ سے نظارہ کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ ’دھند شریف‘ اب اس علاقے میں اپنا بسیرا کرچکی ہے، شام کے اوقات میں موٹرسائیکل سواروں کی ’آنکھ جلنے‘ کی شکایات شروع ہوئی ہیں۔ گلگت ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی آمد کے بعد ظاہریصفائی کاکام اطمینان بخش ہے مگر اب گرد و غبار میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں معمول بن گئی ہیں۔

موسمیاتی تغیرات کے وجوہات ہمارے وہ ’اعمال‘ ہیں جو ہم اپنی وقتی خوشی کے لئے کرلیتے ہیں، لیکن طویل المدت میں اس کے انتہائی منفی ا ثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اب بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی وجہ سے فضاء میں آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے، اور یہ معاملہ اتنی شدت اختیار کرگیا کہ ’سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی میڈیا میں اس حوالے سے بولنے پر مجبور ہوگئے‘۔ گلگت بلتستان کو پورے ملک کے لئے پانی کا خزانہ قرار دیا جارہا ہے لیکن یہاں کے مکین صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں، پانی سے جنم لینے والے امراض سے ہسپتال میں مریض بھر گئے ہیں اور وبا کی طرح امراض پھوٹے جارہے ہیں۔

ایک سرکاری آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ گلگت میں پانی اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ اس سے شاید ’طہارت‘ بھی جائز نہیں ہوگی، زراعت اور پینے کے لئے ناقابل استعمال ہوچکا ہے، مقامی سطح پر پانی کے ٹیسٹنگ کے لئے کوئی لیبارٹری بھی نہیں اور حکومت سمیت متعلقہ محکموں کی اس جانب کوئی توجہ بھی نہیں۔پانچ، چھ سالوں سے گلگت کے دو کوہلوں کی صفائی نہیں ہوسکی ہے، میڈیا پر درجنوں بار خبریں چھپ جانے کے باوجود کوئی ٹس سے مس نہیں ہے، پانی کے مسئلے پر بنائے گئے متعدد محکمے کیس کو ایک دوسرے کی طرف ’منتقل‘ کرتے ہیں، آج سے 15 برس قبل بھی گلگت کے ان دو کوہلوں، جنہیں دادی جواری نے 17ویں صدی میں بنوایا ہے، میں پانی اس قدر صاف تھا کہ لوگ اس میں نہاتے تھے اور صفائی کا بھی مربوط نظام وضع تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غفلت کا شکار ہوگیا، اب دونوں ’کوہل‘ کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے شہر میں چلنے والے ’ریڑھوں‘ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مشقت قرار دیتے ہوئے انہیں جدید مکینیکل رکشوں سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ فیصلہ ان مزدوروں کے معاشی صورتحال اور مشقت کے پیش نظر بہت بہتر ضرور ہے مگر اس کے ماحولیاتی اثرات کو بھی نظر انداز رکھا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ شہر میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے رش کے باوجود رکشوں کو دعوت دینا ’دعوت گناہ‘ نہیں تو کیا ہے؟۔

گلگت بلتستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا منصوبہ مثالی طور پر آگے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف جنگلی حیات کا تحفظ کیا جارہا ہے وہی پر اس سے مقامی کمیونٹی کو کثیر زرمبادلہ بھی مل رہا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ سے قبل چند کلو گوشت کے لئے بھی مارخور جیسے نایاب جانور کا شکار کیا جاتا تھا لیکن اب مارخور کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کے آس پاس چل رہی ہے، گزشتہ سال مارخور کے شکار کی وجہ سے تین علاقوں کو ایک کروڑ سے زائد رقم مل گئی ہے۔ جنگلی حیات کا غیر قانونی شکار پھر بھی رکا نہیں ہے، آج بھی بااثرا فراد نے اپنے بنگلوں کو غیر قانونی شکار کئے گئے نایاب جانوروں کے سینگوں سے سجاکر ’ہذا من فضل ربی‘ کے الفاظ ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا یا اس کے اثرات کو کم سے کم کرنا وقت کی ضرورت ہے ورنہ اس کے نتیجے میں سیاحت بھی تباہ ہوگی اور مقامی وسائل، جنگلی حیات اور جنگلات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ صوبائی حکومت صرف اپنے دور میں ان منصوبوں کی تحقیقات کرائیں جہاں پر قدرتی ماحول یا ماحولیاتی قوانین کو نظر انداز کرکے کام کیا گیا ہے۔ گلیشیئرز کے منہ پہ پاور منصوبے اور تعمیرات کا پول کھل جائیگا، ماحولیات کے تحفظ کے لئے دفعہ 144ناکافی ہے، سخت قوانین کو نافذ العمل کرنا ہوگا۔ وہی پر شہریوں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ہر اس فعل پر غور کریں جس سے ماحول متاثر ہورہا ہے کیونکہ یہ واحد ’شعبہ‘ہے جس کے نقصانات نے کوئی صنفی یا امتیازی تفریق نہیں کرنی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے