ریز آف لائٹ

ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کے منصب امامت پر جلوہ افروز ہونے کے 60 سال پورے ہونے پر شیعہ امامیہ اسماعیلیہ مکتب نے ڈائمنڈ جوبلی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب کے تحت ہزہائینس پرنس آغا خان شاہ کریم الحسینی نے پوری دنیا میں موجود اپنے پیروکاروں کو دیداری کرائی جس کے لئے خود چل کر اپنے پیروکاروں کے پاس چلے گئے۔ اس ڈائمنڈ جوبلی کے ایک حصہ کے طور پر ’ریز آف لائٹ‘ تقریب بھی منعقد کی گئی، جو دنیا کے 25 ممالک میں انعقاد پذیر ہوچکی ہے، گزشتہ سال کے وسط سے اب تک جاری ہے۔ریز آف لائٹ سے مراد ’نور کی شعاعیں‘ لی گئی ہیں۔

دنیا بھر میں اسماعیلی مسلمانوں کی تعداد 15 ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے جن میں سے تقریباً پانچ لاکھ پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں موجود پانچ لاکھ میں سے زیادہ تر گلگت بلتستان میں قیام پذیر ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گلگت بلتستان کی کل آبادی کا تقریباً 20فیصد حصہ اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔ ’ریز آف لائٹ‘ گلگت بلتستان کے چار مقامات پر سجالیا گیا جن میں یاسین، گاہکوچ،ہنزہ اور گلگت شامل ہیں۔ دسمبر کے وسط میں یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔

گزشتہ دنوں صحافی دوستوں کے ہمراہ ’ریز آف لائٹ‘کی اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔’ریز آف لائٹ‘بنیادی طور پر ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کے کردار اور خدمات پر روشنی ڈالنے کے لئے لگائے گئے سٹال یا نمائش ہے۔ ابتدائی تقاضے پورے کرنے کے بعد جونہی مرکزی پنڈال میں داخل ہونگے، ایک گائیڈ آپ کے ساتھ ہولیتا ہے۔ پہلی قدم پر ہی قرآن کی ایک آیت کا انگریزی ترجمہ درج کیا گیا ہے جس میں ’نور‘ کا زکر ہے، وہی پر آپ کو بتادیا جائیگا کہ ’نور کی شعاعیں‘ اسی لئے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ اسلام میں علم کو بھی نور قرار دیا گیا ہے۔

مکتب اسماعیلیہ کے پاس اپنے مسلک یا مذہب کے حوالے سے بھرپور دلائل موجود ہیں بالخصوص حدیث کا مفہوم ہے کہ میں اپنے بعد آپ میں قرآن اور اہل بیت چھوڑ کر جارہا ہوں۔ موجودہ امام اہل بیت کے تسلسل میں 49ویں نمبر پر ہیں، اور سلسلہ نسب حضرت فاطمہ زہرا کے زریعے حضور اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔

ریز آف لائٹ میں موجودہ امام کے علاوہ سابقہ اماموں کی زندگی پر بھی مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کے ویژن کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ جن کے تحت انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بالخصوص اپنے پیروکاروں کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ ان میں ایک مکالمے کا فروغ، امید زندگی، ہم آہنگی کا قیام اور قدرتی ماحول کی بہتری کے لئے اقدامات ہیں۔ ان چاروں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہزہائینس پرنس کریم آغا خان نے دنیا بھر میں ترقیاتی، تعمیراتی اور سماجی کام کئے ہیں۔ ہز ہائینس پرنس کریم آغا خان کی خدمات پر روشنی ڈالنے کے لئے سجائے گئے نمائشی سٹال میں دو گھنٹے وقت گزارنے کے باوجود بھی یہی زہن میں آیا کہ جو محض ایک تصویر دکھائی گئی اس کے پیچھے ایک فلسفہ اور تصور موجود ہے اوریقینا اس مختصر عرصے میں ہز ہائینس کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک کالم میں۔

خیبرپختونخواہ کے علاقے چترال سے شندور کی طرف آتے ہوئے گلگت تک اور گلگت سے چائینہ بارڈر خنجراب پاس کی جانب جاتے ہوئے جگہ جگہ پر ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کی خدمات کا ثبوت ملے گا۔ ان دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام جیسے اداروں کے زریعے مقامی کمیونٹیز کو اس حد تک بااختیار کرلیا گیا کہ آج وہ اے کے آر ایس پی کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے چلی گئی ہیں، ان مقامی کمیونٹیز میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہزہائینس صنفی تفریق کو موضوع نہیں سمجھتے اور زندگی کے ہرشعبے میں خواتین کا حصہ لازمی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پیروکار خواتین دیگر کمیونٹیز سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں چاہے وہ تعلیمی میدان ہو ہو یا تعمیر و ترقی کا میدان ہو۔

آغا خان لقب کے ساتھ امامت میں ہزہائینس پرنس کریم آغا خان چوتھے امامتی وارث ہیں، اس سے قبل موجودہ امام کے دادا سرسلطان محمد شاہ قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کے بانیوں میں تھے، اور یہ بات بھی شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگی کہ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کو سنبھالنے کے لئے بڑی حد تک والنٹیئر خدمات سرانجام دینے والے ملازمین کی پہلی تنخواہ بھی سرسلطان محمد شاہ نے اپنے جیب سے ادا کی تھی۔ 1946کی جوبلی میں جب سرسلطان محمد شاہ کو ’ڈائمنڈ‘میں تولا گیا تو اس رقم سے گلگت بلتستان میں تعلیمی مراکز کا ابتداء کیا۔ پھر 1958کے قریب سلطنت عمان سے گوادر کی زمین خرید کر پاکستان کو تحفے میں دیدی جس کے بدولت آج ’سی پیک‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔ 1982-83 میں اے کے آر ایس پی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت مقامی لوگوں کو خودکفیل اور خودمختار بنانے کی جانب قدم اٹھایا گیا۔

ہزہائینس پرنس کریم آغا خان نے نہ صرف اپنی کمیونٹی کے لئے بلکہ دیگر لوگوں کے لئے بھی ویژن دیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر آگے بڑھا جاسکتا ہے، ریز آف لائٹ میں ان کی خدمات پر مختصر اجمالی جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ ان کے ویژن تک شاید ’اسماعیلی‘ خود بھی نہیں پہنچ پائے ہیں۔ پوری دنیا میں مذہبی شخصیات میں ہزہائینس کا بہت بڑا نام اور صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے، دنیا میں اس وقت جاری تہذیبوں کے تصادم میں ہزہائینس نے مسلم تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوئے اس تصادم کو ’جہالت کی تصادم‘ قرار دیا ہے۔ اپنے پیروکاروں کو انہوں نے تاکید کردی ہوئی ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کمیونٹیز کو لیکر چلو اور اچھے تعلقات استوار رکھو، انہوں نے گلگت میں آکراپنے ’فرمان‘ میں کہا کہ ’تمہارے پہاڑ، دریا، مسائل مشکلات، مصائب، وسائل سبھی مشترک ہیں‘۔

یہ بات بھی ایک فطری بات ہے کہ دنیا میں بڑے لوگوں کے متعلق حقائق سے زیادہ افواہ عام ہوتے ہیں، اور یہی بات ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کے متعلق بھی ہیں، اور شاید حقائق سے خود اپنی کمیونٹی کے لوگ بھی اسی طرح آگاہ نہیں تھے۔ ریز آف لائٹ کے زریعے ہزہائینس کی خدمات کو عوام کے سامنے لانے کی ایک سعی کرلی گئی اور ساتھ میں ان افواہوں کا قلع بھی کسی حد تک قمع کردیا۔ ہمارے گائیڈ کو اس سارے عمل میں انتہائی مہارت تھی اور بڑی فراوانی سے وہ تفصیلات سے آگاہ کئے جارہا تھا لیکن غلط العام ’افواہوں‘ کے تذکرے میں آکر کسی حد تک جذباتی بھی ہوگئے۔

ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب محدود تھی لیکن ریز آف لائٹ کو ہر ایک کے لئے کھول دیا گیا۔ تعمیر و ترقی، ہم آہنگی، تکثیریت، مکالمہ، امید، ماحولیات و دیگر موضوعات پر ہزہائینس کا ویژن بلند پایہ کا ہے، جس پر اب تک کی جانے والی تحقیق یقینا احاطے میں ناکام ہوگی۔ عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ گزشتہ 60سالوں سے پوری دنیا میں مسلمانوں اور مکتب اسماعیلیہ کا مثبت اور بہتر تشخص اجاگر کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ 82 سال(83ویں بہار میں داخل ہوگئے ہیں، جس پر اسماعیلی دوستوں کو مبارکباد ) کی عمر میں بھی اسے جہاز، ہیلی کاپٹر جیسی سہولیات کی ضرورت نہیں بلکہ پیدل بھی اپنے عزم کی تکمیل کے لئے نکل پڑتے ہیں جس کا مظاہرہ گلگت میں دیداری کے دوران دیکھا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے