عورت سے چھت چھیننے کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے:ریحام خان

reham

 تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہاہے کہ وہ عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد ہرلحاظ سے ان کا دفاع کیامگر اب احساس ہواہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی،

پاکستانی مردوں کو عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کافیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے محبت اور تحفظ کے نام پر خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں ،

میڈیا نے میری کردار کشی کی، تعجب ہے کہ جن لوگوں سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی کوسوں دور بیٹھ کرکیسے میرے بارے میں قابل اعتماد معلومات دیتے ہیں،خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن شاید ’’قومی بھابھی ‘‘ہونے کا مطلب تھاکہ پورا ملک میرا سسرال ہوگیا اورہر کسی کومیرے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے۔

برطانوی روزنامے ’’دی گارڈین ‘‘میں شائع ہونے والے ایک پرشکوہ مضمون میں ریحام خان نے لکھا کہ جب میری عمران خان سے شادی ہوئی تو اس وقت میری بہن نے ازراہ مذاق مجھ سے کہ مجھے میڈیا میں ایک تعلیمی ڈگری کی طرح ’’طلاق یافتہ ‘‘کے طورپر کیوں متعارف کیاگیا ؟۔

انہوں نے کہاکہ شادی کے وقت مجھے میڈیا میں تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں کے طورپر پیش کیاگیا لیکن مجھے حیرت ہے کہ میڈیا نے عمران خان کی جمائما گولڈ سمتھ سے شادی او رطلاق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا حتیٰ کہ بعض ٹی وی چینلوں نے میرے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی بریکنگ نیوز کے طورپر سکرین پر دکھائے جبکہ انہیں کوئی معلومات نہیں ملی تو انہوں نے قیاس آرائیوں سے خالی جگہ پر کردی۔

انہوں نے لکھاکہ دوسری اس با ت کا احساس ہوا کہ اگر آپ عورت ہیں تو اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کتنی تعلیم یافتہ ہیں ،کتنی قابل رشک آمدنی ہے یا کتنی پر اعتماد ہیں ایک غریب ، ان پڑھ عورت اور میرے جیسی دونوں طرح کی عورتیں خطرات کا مقابلہ کرنے کے لحاظ سے کمزور ہیں ، کوئی بھی مرد ان پر کیچڑ اچھال سکتاہے ، گالی دے سکتاہے ، آپ کے کردار پر انگلی اٹھا سکتاہے ۔

اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ محبت اور تحفظ کے نام پر ہوتاہے ۔

جنوری کی جانب واپس چلتے ہیں جب عمران او رمیں اسلام آباد میں ولیمہ کی استقبالیہ تقریب کے بعد واپس گھر پہنچے تو ابھی میں نے عروسی جوڑا بھی تبدیل نہیں کیا تھا ،بتایاگیاکہ آپ نے نو بیاہتا جوڑے کے طورپر اپنا پہلا ٹی وی انٹرویو دیناہے ۔

بغیر کسی تیار ی کے مجھے ہاٹ سیٹ پر بٹھا کرکروڑوں افراد کا سامنا کروایاگیا ۔ٹی وی چینل کے اینکر نے پہلا سوال یہ داغا کہ اس کی ریسرچز سے یہ معلوم ہواہے کہ آپ پہلی شادی میں گھریلو تشدد کی شکار ہوئی ہیں۔

تو میں نے اس سوال کی بغیر کسی تیاری کے جواب دیا کہ میں گھریلو تشدد کے تجربے سے خوفزدہ نہیں اگر چہ یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔میں نے پہلے کبھی اپنے تجربات سے متعلق اظہار خیال نہیں کیا لیکن اس ایشو کیلئے بہت زیادہ آگہی کی ضرورت ہے ۔

اسی روز میرے سابق میاں نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ میرا جواب ایک سفید جھوٹ تھا ، مجھے تحریک انصاف کی جانب سے جواب نہ دینے کا مشورہ دیاگیا۔

ہمارے معاشرے کی خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن ’’قومی بھابھی ‘‘ہونے کا مطلب ہے کہ پورا ملک میرا سسرال تھا جس کا مطلب ہے کہ ہر کسی کو آپ سے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے ۔

مجھے اب یہ محسوس ہوا کہ بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔پاکستانی مردوں کے نزدیک مکان کو گھر بنانے والی بیوی کی محنت اور محبت کی قیمت اس اسٹامپ سے زیادہ نہیں ہے جو آپ کیلئے ہمیشہ اس گھر کے دروازے بند کردیتاہے ۔

عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کے فیصلہ کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے ۔42سال کی عمر میں اور دوشادیوں کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ نے والی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ،کیونکہ انہیں دوبارہ خریدا جاسکتاہے لیکن انسانیت اور محبت پر یقین ایک بار کھو دیں تووہ دوبارہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے میری کردار کشی کی ۔ میں حیران ہوں کہ جن لوگوں سے میری کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی وہ کس طرح میلوں دور بیٹھ کر میرے بارے میں قابل اعتماد معلومات دیتے ہیں ۔

میں اپنی خوابگاہ میں کسی اضافی نظر یا کان سے واقف نہیں تھی ۔مجھ سے مسلسل یہ سوال پوچھا جارہاہے کہ میری شادی صرف 10ماہ کے بعد ہی کیوں ختم ہوئی ؟کیا یہ میڈیا کی سکروٹنی تھی یا عمران کے مشیروں کی مداخلت تھی ؟کیا یہ صحیح ہے کہ عمران خان کے خاندان نے جدائی میں اہم کردار ادا کیا ؟

لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ان سب میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی ۔میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ اپنے خاندان کا تحفظ میرا فرض ہے ۔عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد میں نے ہرطرح سے ان کا دفاع کیا ۔جب پی ٹی آئی کیلئے انتخابی مہم میں شرکت پر تنقید کی گئی تو میں عوامی نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔

ہم نے اپنے دونوں ٹوئٹر اکاؤنٹس سے یہ وضاحتی بیان دیا کہ میرا پارٹی میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن یہ بیان سرزنش کیلئے کافی نہیں تھا ۔

اس کے بعد میں نے بامر مجبوری یہ محسوس کیا کہ باعزت رخصتی ہی ضروری ہے اس امید کیساتھ کہ میرے شوہر پر ناقابل یقین حد تک دباؤ ختم ہو اور وہ اپنے مشن پر نظریں مرتکز کرسکیں ۔محبت یہ نہیں کہ آپ ہمیشہ اس سے چمٹے رہیں بلکہ بعض اوقات اسے آزادبھی کرنا پڑتاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے