کشمیرکی ثقافتی صورتحال

"فیرن” جموں کشمیر کے لوگوں کا پسندیدہ اور قدیم دور سے مروج لباس ہے جو عموما سردیوں میں پہنا جاتا ہے ۔ گرمیوں فیرن طرز کی قمیض بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے بعض برفانی علاقوں مظفرآباد، نیلم،جہلم ویلیز کے علاوہ راولاکوٹ کے لوگ بھی فیرن پہنتے ہیں ۔

درحقیقت فیرن یہ ایک بڑی سی کھُلی اور ڈھیلی ڈھالی قمیض ہی ہوتی ہے جو عام کپڑوں یعنی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کے اُوپر زیبِ تن کی جاتی ہے ۔ اس کا اصل نام پیرہن تھا جو بعد میں بگڑ کر فیرن اور پھیرن بن گیا ۔ فیرن موٹے کپڑے سے بنائی جاتی ہے جو سردیوں میں نہ صرف کوٹ یا چادر کا کام دیتی ہے بلکہ اس کے اندر جلتی کانگڑی رکھ کر جسم کو حرارت دی جا سکتی ہے ۔کانگڑی کیا ہے اس پر بھی گفتگو کریں گے۔

بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں قابض بھارتی فوج اکثر یہ الزام لگاتی رہتی ہے کہ کشمیری مجاہدین فیرن کے نیچے اسلحہ چھپا کر بآسانی نقل و حرکت کرتے ہیں ۔ 5 اگست سے قبل جموں کشمیر کی ایک اسمبلی تھی۔اس سے قبل محبوبہ مفتی جو کٹھ پتلی وزیر اعلی تھیں۔مودی سرکار کے کہنے پر اسی الزام کے پیشِ نظر مقبوضہ وادی میں قابض انتظامیہ نے گزشتہ سال محکموں کے دفاتر میں فیرن پہن کر جانے پہ پابندی لگارکھی ہے۔ 5 اگست کے بعد جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مودی سرکار نے ایک افراتفری کا ماحول بنا رکھا ہے۔

نوے کی دہائی کے وسط میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں متعین بھارتی گورنر سکسینہ نے بھی حکم جاری کیا تھا کہ شلوار قمیض پہن کر دفاتر میں نہ آیا جائے مگر کشمیریوں نے اُس کے حُکم کورد کردیا تھا۔اس وقت جموں کشمیر کی نہ صرف ثقافت ختم کی جارہی ہے،بلکہ یہاں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی کوشش بھی ہے۔بھارت کی فاشسٹ مودی سرکار نے لداخ اور جموں کو یوٹی بنا دیا۔جموں کشمیر کے 80 لاکھ لوگ 130 روز سے ایک پنجرے میں بند ہیں۔

جموں کشمیر کے لوگوں کوخوراک ،ادویات کی بندش،انٹرنیٹ،میڈیا بلیک آئوٹ سمیت تقسیم جموں کشمیر کا سامنا ہے۔جموں کشمیر پر ناجائز قبضے کے خلاف ہماری ٹیم "ریڈ ٹو گرین جموں کشمیر” بھی پرامن جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔جو مختلف سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے جموں کشمیر کی طرف عالمی ضمیر کو متوجہ کررہی ہے۔اس وقت چار پراجیکٹس عوامی شعوری آگہی اور جموں کشمیر میں ظلم وبربریت کی جانب دنیا کا رخ موڑنے کی کوشش ہے۔جموں کشمیر کے عوام سمیت دنیا بھر کے ممالک کے عوام کو سوشل میڈیا پر ہماری ٹیم کی جانب سے ایک اپیل ہے پھیرن یا فیرن ضرور خرید پر پہنیں۔فیرن کے ساتھ ایک تصویر اور سیلفی سوشل میڈیا وٹس ایپ،ٹویٹر،انسٹا،فیس بک پر ہیش ٹیگ #PheranPehno کے ساتھ شئیر کریں۔ اس ثقافت کو ابتدائی طور پر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر تائو بٹ تا بھمبر گلگت بلتستان میں عام کیے جانے کی کوشش بھی ہے۔

اس ضمن میں کشمیری ایک دوسرے کو تحفے تحائف اس خوبصورت لباس کی صورت میں دے رہے ہیں جو اس پر آشوب دور میں جموں کشمیر کی شناخت بچانے کا کڑا سلسلہ بھی ہے۔
بعینہ ریڈ ٹو گرین جموں کشمیر کی ٹیم نے کشمیری ڈرائیورز کی مدد سے ” سری نگر میرا ہے” مہم بھی شروع کررکھی ہے۔جس کے تحت بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں کو مودی ختم شناختی اعتبار سے ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔وہاں کے علاقوں کی جانب علامتی روٹ بورڈز بھی آویزاں کیے جارہے ہیں۔گاڑیوں پر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں میں جاری کشمیری بچوں،بزرگوں اور جوانوں سے ظلم کو پینا فلیکس کی صورت میں بے نقاب کیا جارہا ہے۔جو گاڑیوں پر آویزاں کیے جارہے ہیں۔

ریڈٹو گرین جموں کشمیر ٹیم چوکوں،کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کے نام بھی تبدیل کرکے اننت ناگ،لداخ،ڈوڈہ،سری نگر، کولگام،شوپیاں،پلوامہ۔گلگت۔غذر،دیامیر، گانچھے، اوڑی،بارہمولہ، کشتواڑ،تریگام سمیت مختلف کشمیری علاقوں کے ناموں سے تبدیل کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو تعلیم دے رہی ہے۔بھارتی ناجائز قبضے سے جان چھڑانے کے لیے ہماری ٹیم نے طلبہ وطالبات کے ذریعے ایک ڈائری احتجاج بھی شروع کررکھا ہے۔جس کے تحت کشمیری سٹوڈنٹس اپنے تاثرات ڈائریوں پر قلمبند کررہے ہیں۔4 جنوری 2020ء کو جموں کشمیر کے تمام شہید بچوں کا دوسری بار خصوصی دن بھی منایا جائے گا۔اس دن شجرکاری کی جائے گی جو جموں کشمیر سے گلگت بلتستان کے تمام کشمیری بچوں کے نام منسوب کی جائے گی۔جموں کشمیر کی جانب عالمی دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے درج ذیل ہیش ٹیگز بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔

[pullquote]فیرن کو عام کرنے کے لیے [/pullquote]
#PheranPehno

[pullquote]ریڈ ٹو گرین جموں کشمیر کے تمام پراجیکٹس شجرکاری،پوسٹرز آویزاں کے لیے۔[/pullquote]
#RedToGreenJammuKashmir
#TeamRedToGreenJammuKashmir

[pullquote]گاڑیوں کے پینا فلیکس،کاروباری مراکز اور مارکیٹس کے نام تبدیلی کے لیے [/pullquote]
#sirinagarmerahai #MzdGBMerahai #JKState

ان تمام ہیش ٹیگز کے ذریعے آپ بھی اس کاوش کا حصہ بن کر کشمیریوں کی آواز بن سکتے ہیں۔

آئیں جموں کشمیر کی شناخت،ثقافت کو بچانے کے لیے یک جان ویک قلب ہوکر اجتماعی اور سوچوں کو پروان چڑھائیں۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے