شفا رویوں میں ہوتی ہے دواؤں میں نہیں

لہجہ پہلے نہایت دھیما تھا، لیکن کچھ لمحوں بعد قدرے بلند ہوگیا۔ شائد جو گفتگو کا مخاطب تھا وہ بات سمجھنے سے قاصر تھا یا اس کی ذہنی کیفیت ابھی اس بات کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔ لیکن حیران کن پہلو یہ تھا کہ لہجہ بلند ہونے کے باوجود ایک نرمی لیے ہوئے تھا۔ لہجہ بلند تھا، مگر کرخت نہیں۔ کبھی کوئی فقرہ دھیمی آواز میں ادا ہوتا کبھی قدرے بلند آواز میں۔ آواز کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتے ہوئے اس سچائی سے انکار ممکن نہیں تھا کہ لہجے کو نئے زاویے دینے والی شخصیت بہرحال ہر صورت میں اپنی بات نہ صرف سننے والے کے دل و دماغ میں راسخ کرنا چاہتی ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ بات سمجھانا ہر طرح کا کام سے زیادہ اہم ہے۔ دھیمی و بلند آواز کے امتزاج نے حیران کن اثر ڈالا۔ سننے والا جو کچھ لمحے پہلے تک چہرے پہ پریشانی، آنکھوں میں نمی لیے بوجھل دل کے ساتھ بیٹھا تھا، اُس کے چہرے پر اب مسکراہٹ واضح دیکھی جاسکتی تھی۔

’’یہ گفتگو کے مختلف زینے طے کرتی ہوئی شخصیت کیا کوئی موٹیویشنل اسپیکر ہیں؟‘‘ سوال کیا، لیکن جواب نفی میں ملا۔ ’’تو پھر یقینی طور پر یہ کونسلنگ کی کوئی ماہر ہوں گی؟‘‘ دوبارہ سوال کیا، لیکن اس مرتبہ بھی جواب نفی میں تھا۔ اور میرے تیسرے سوال سے پہلے ہی میرا علاج کرنے والی ڈاکٹر بولیں کہ یہ ہماری سینئر ڈاکٹر ہیں اور ایک مریض کو جو ذہنی طور پر پریشان ہے، بہلا رہی ہیں۔ اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی رہیں۔

یہ جڑواں شہروں کے ایک بہت بڑے اسپتال کا منظر تھا۔ راقم الحروف کا بھی علاج کی غرض سے جانا ہوا۔ اور اپنے چیک اپ کے دوران کچھ فاصلے سے مریض و ڈاکٹر کا یہ مکالمہ سننے کا موقع ملا، جس سے یہ یقین پختہ ہوتا چلا گیا کہ مرض آدھا تو ڈاکٹر کے رویے سے ہی کم ہوجاتا ہے۔ اور سینئر ڈاکٹرز کا یہ رویہ کہ وہ مریضوں کو گاہک سمجھنے کے بجائے ایک مریض کی طرح دیکھیں، بہت عرصے بعد دیکھنے کو ملا۔ خوشگوار لمحہ وہ تھا کہ جس مریض کی ڈاکٹر ذہنی حالت یا پریشانی کو اپنی نرم باتوں سے اور میٹھے لہجے سے درست کرنے کی کوشش کررہی تھیں، اس گفتگو سننے والے پر تو یقینی طور پر اثر ہوا ہوگا لیکن راقم کی پریشانی اپنے علاج کے حوالے سے کافی حد تک کم ہوگئی اور اگلے پینتالیس منٹ کے طبی اونچ نیچ کے دوران مکمل طور پر دل سکون میں رہا۔ درد یا علاج کی اذیت کی جانب دھیان رہا ہی نہیں کہ دھیان تو سارے کا سارا اس معالج کی طرف ہوگیا جو اپنے مریض کا نہ صرف علاج کررہا تھا بلکہ کونسلنگ کا اضافی اخلاقی فریضہ بھی پورا کررہا ہے۔

پاکستان میں تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جو خدمات سے تعلق رکھنے کے باوجود کاروبار کا درجہ پاچکے ہیں۔ تعلیم ریاست کی ذمے داری تھی لیکن اب نجی اسکولوں کا کاروبار بن چکی ہے۔ صحت مہیا کرنا بھی ریاست کی ذمے داری تھی، لیکن اب یہ بھی کاروبار بن چکا ہے اور وہ بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے والا۔ ایسی صورت میں لوگوں کی جیبوں پر تو ڈاکا پڑتا ہی ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لوگ پیسے خرچ کرنے کے باوجود صحت یاب نہیں ہو پارہے۔ اس کی بنیادی وجہ معالجین کا مریضوں کے ساتھ پیش آنے والا رویہ ہے۔ معالجین مریضوں کو ان کے سوالات پر نہ صرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ کسی دوسری جگہ سے علاج اگر آپ نے کروایا ہے تو آپ کو بے نقط کی سننی پڑسکتی ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں لوگ اس وقت تک اسپتال کا رخ نہیں کرتے جب تک جاں پر نہ بن آئے۔ اور علاج کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔ اور لوگ اسی لیے اسپتالوں کو رخ نہیں کرتے کہ وہاں علاج سے زیادہ ذہنی کوفت کا مکمل بندوبست ہوتا ہے۔ نہ آپ ٹیسٹ کروا سکیں گے، نہ علاج معالجے کی سہولیات معیاری ہیں۔ معالجین کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو کچا چبا جائیں گے، اور نہ ہی ادویہ مفت میسر ہوتی ہیں۔ لہٰذا لوگ اسی وقت شفا خانوں کا رخ کرتے ہیں جب تمام دیسی ٹوٹکے ناکام ہوجاتے ہیں۔

کیا خوب ہو کہ جس طرح راقم الحروف کو ان ڈاکٹرز کا رویہ مثالی محسوس ہوا، اور یہ ڈاکٹرز سے زیادہ مریضوں کی نفسیات کے مطابق ان کی کونسلنگ کے ماہر نظر آئے ایسے ہی وطن عزیز کے تمام ڈاکٹر مریضوں کو صرف بیمار انسان سمجھ کر ان کے ساتھ رویہ نرم کرلیں۔ شفا منجانب اللہ ہے، لیکن معالج کا اچھا رویہ مریض کی بیماری کےلیے قوت مدافعت حیران کن طور پر پیدا کردیتا ہے۔ جو مریض مایوس ہوتا ہے وہ صرف اپنے معالج کی بہتر رہنمائی، نرم لہجے اور مسکراہٹ سے بیماری سے لڑنے کی ہمت پالیتا ہے۔

شفا اگر صرف دواؤں میں ہوتی تو لوگ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کیوں مایوسی میں ہوتے۔ شفا تو رویوں میں ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے