جاپان کے ساحل سے ایک ایسی تباہ شدہ کشتی ملی ہے جس سے پانچ لاشیں اور دو انسانی سر برآمد ہوئے ہیں۔یہ کشتی جمعہ کے روز جاپان کے ساڈو جزیرے کے ساحل سے دریافت ہوئی جبکہ جاپانی حکام نے سنیچر کے روز اس تک رسائی حاصل کی۔اس تباہ شدہ کشتی کے باہری حصے پر کوریائی زبان کے حروف درج ہیں۔پولیس اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی کہ آیا یہ دو سر ان لاشوں میں سے ہیں یا نہیں تاہم جاپانی میڈیا کے مطابق انسانی جسم کے یہ باقیات اب ’جزوی طور پر ڈھانچوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔‘یہ اس بات کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ یہ متاثرہ افراد ایک عرصے سے سمندر میں موجود تھے۔
جاپان کے ساحلوں پر ایسی کشتیوں کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان ’پراسرار کشتیوں‘ کا تعلق شمالی کوریا سے ہے۔عام طور پر یہ کشتیاں خالی ہوتی ہیں یا پھر ان میں انسانی جسم کے باقیات موجود ہوتے ہیں۔ خصوصاً موسمِ سرما کے دوران بھوک اور ٹھنڈ کو اموات کی وجہ بتایا جاتا ہے۔اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں کہ ان کشتیوں میں سوار افراد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے جابرانہ نظام حکومت سے بغاوت کرنے والوں میں سے یا اس کے جاسوسوں میں سے ہیں۔تاہم اس حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ غربت شمالی کوریائی باشندوں کو سمندر میں دور جا کر مچھلیاں پکڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔
سنہ 2017 میں مچھیروں کا ایسا ہی ایک گروہ ایک بحری جہاز میں زندہ ملا تھا اور انھوں نے شمالی کوریا واپس بھیجے جانے کی التجا کی تھی۔جاپان اور شمالی کوریا کے درمیان موجودہ تناؤ کے باعث اس تباہ شدہ کشتی کے حوالے سے تفتیش کے دوران مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔جمعہ کے روز جاپانی سرکاری چینل این ایچ کے نے غلطی سے شمالی کوریا کے میزائل لانچ کے حوالے سے خبر چلا دی لیکن پھر جلد ہی اس کی تصحیح کر دی۔ انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر چلانا دراصل ایک تربیتی عمل کا حصہ تھا۔
رواں برس نومبر میں شمالی کوریا نے جاپان کو ‘اصلی بلسٹک میزائل’ کے استعمال کی دھمکی دینے کے علاوہ جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایب کو ایک ‘بیوقوف’ اور ‘سیاسی بونا’ کہا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے حالیہ ہتھیاروں کے تجربے کے حوالے سے درست حقائق نہیں بتائے۔