عدم تعاون قانون سازی میں رُکاوٹ بنا رہا

سالِ رفتہ میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین محاذ آرائی اور عدم تعاون کے سبب کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہ ہو سکی۔ اور اپوزیشن کی جانب سے اس کا ذمّے دار حکومت کی عدم دِل چسپی کو قرار دیا گیا۔ جب کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی کو قانون سازی میں مسلسل مشکلات اور رُکاوٹوں کا سامنا رہا، جس کی بڑی وجہ پارلیمانی کمیٹیوں کی عدم تشکیل تھی۔ اسی باعث کئی ماہ تک قانون سازی کا عمل معطّل رہا۔

[pullquote]کتنے بِلز پاس ہوئے؟[/pullquote]

گزشتہ برس پارلیمنٹ نے ایک آئینی ترمیم سمیت 23بِلز منظور کیے، جن میں مالی سال 2019-20ء کا بجٹ یعنی فنانس بِل اور دو منی بجٹس یعنی ضمنی فنانس بِلز بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، رُکنِ قومی اسمبلی، محسن داوڑ کی جانب سے پیش کیا گیا 26ویں آئینی ترمیم کا قانون بھی منظور کیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کی رُو سے قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستیں 6سے بڑھا کر 12، جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16سے 24کر دی گئی۔2019ء کے دوران منظور ہونے والے 23قوانین میں سے 22حکومت، جب کہ ایک نجی رُکن کی طرف سے پیش کیا گیا۔

منظور شُدہ قوانین میں پاکستان میڈیکل کمیشن بِل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا بورڈ کا ترمیمی بِل، قبائلی علاقوں میں نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بِل، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں شکایات کی سماعت کے لیے ایک کی بجائے دو بنچز کے قیام کا بِل، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بِل،ویسٹ پاکستان پروہیبیشن آف اسموکنگ اِن سینما اور ویسٹ پاکستان جووینائل اسموکنگ کے بِلز، میڈیکل ٹربیونل بِل، کوڈ آف سِول پروسیجر ترمیمی بِل، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی بِل، بے نامی ٹرانزیکشن بِل، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی بِل اور نیب ترمیمی بِل قابلِ ذکر ہیں۔

حکومت کی قانون سازی میں عدم سنجیدگی کے نتیجے میں درجنوں اہم آئینی بِلز التوا کا شکار ہوئے۔ ان میں معذور افراد کے حقوق کا بِل، قومی اسمبلی میں اسلام آباد سے خواتین کے لیے ایک نشست بڑھانے کا آئینی ترمیم کا بِل، کنٹرول آف نارکوٹکس بِل، اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بِل، فارن ایکسچینج ریگولیشن بِل اور زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری بل قابلِ ذکر ہیں، جب کہ نجی اراکین کی جانب سے پیش کیے گئے 114بِلز میں سے محض ایک ہی منظور ہو سکا۔ دوسری جانب ان سطور کی اشاعت تک سال بَھر میں قومی اسمبلی کے کُل 17اجلاس منعقد ہوئے اور اس دوران 109روز ایوان کی کارروائی ہوئی۔

[pullquote]شہباز شریف کی پی اے سی کی سربراہی سے دست برداری[/pullquote]

برسرِ اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ میں پہلا تنازع پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین کے انتخاب پر سامنے آیا۔ اس موقعے پر وزیرِ اعظم، عمران خان اور اُن کی کابینہ کے بیش تر وزرا کی رائے تھی کہ اپوزیشن لیڈر، میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤئنٹس کمیٹی کا چیئرمین مقرر نہ کیا جائے، کیوں کہ وہ خود بدعنوانی کے مقدّمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

البتہ حزبِ اختلاف نے یہ رائے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس تنازعے کے باعث پارلیمانی کمیٹیز کی تشکیل بھی مؤخر ہو گئی۔ تاہم، پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد دسمبر 2018ء میں قائدِ حزبِ اختلاف کو پی اے سی کی سربراہی سونپ دی گئی۔ شہباز شریف اپنی گرفتاری کے دوران پروڈکشن آرڈرز پر مسلسل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے طویل اجلاس منعقد کرتے رہے۔

تاہم، جونہی اُن کی ضمانت منظور ہوئی، پی اے سی کی سرگرمیاں معطّل ہو کر رہ گئیں۔ بعد ازاں، شہباز شریف کے مستعفی ہونے پر اُن کی جگہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے رہنما، رانا تنویر کو چیئرمین پی اے سی منتخب کر لیا گیا۔

[pullquote]اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری اور پروڈکشن آرڈرز[/pullquote]

قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران اپوزیشن کی جانب مسلسل گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ ابتدا میں اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر نے یہ معاملہ لٹکائے رکھا، لیکن پھر حزبِ اختلاف کے شدید احتجاج کے باعث ایوان کی کارروائی معطّل ہونے پر آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر دیے۔

شاہد خاقان عبّاسی، جو پہلے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود احتجاجاً اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے تھے، 10دسمبر کو ایوان میں پہنچے اور اسپیکر کے رویّے کو ہدفِ تنقید بنایا۔ تاہم، قبائلی اضلاع سے منتخب دو ارکانِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز بجٹ سیشن اور کشمیر پر بلائے گئے مشترکہ اجلاس کے دوران بھی جاری نہیں کیے گئے۔ البتہ ضمانت منظور ہونے کے بعد یہ ارکان اجلاس میں شرکت کرتے رہے۔

[pullquote]قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس پر پابندی[/pullquote]

قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے اپوزیشن کے گرفتار ارکانِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جاتے رہے۔ ان ارکان میں سے آصف علی زرداری کو نصف درجن قائمہ کمیٹیوں کا رُکن مقرر کیا گیا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قائمہ کمیٹی کے سربراہان نے ان کمیٹیوں کے اجلاسوں کا شیڈول کچھ اس طرح ترتیب دیا کہ سابق صدر پروڈکشن آرڈر پر روزانہ اجلاس میں شرکت کرتے رہیں۔

وزیرِ اعظم، عمران خان نے 29جون کو بجٹ منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ارکانِ اسمبلی کی خاطر پروڈکشن آرڈرز کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں، جولائی کے دوسرے ہفتے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے کفایت شعاری کے نام پر عام دنوں میں قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس پر پابندی عاید کر دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کیے جائیں گے، جس کے نتیجے میں قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی بھی تعطّل کا شکار ہو گئی۔

[pullquote]وزیرِ اعظم کتنی بار پارلیمنٹ آئے؟[/pullquote]

وزیرِ اعظم، عمران خان نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسمبلی کے وقفۂ سوالات کے دوران اراکین کی جانب سے کیے جانے والے سوالات کے خود جوابات دیں گے۔ تاہم، پہلے پارلیمانی سال کے دوران مجموعی طور پر 119روز منعقد ہونے والے اجلاسوں میں وزیرِ اعظم صرف 15روز ایوان میں نظر آئے اور یوں اُن کی حاضری کا تناسب 14فی صد بنتا ہے۔

مشترکہ اجلاس یا خصوصی اجلاسوں کے علاوہ معمول کے اجلاسوں میں وزیرِ اعظم صرف12مرتبہ ایوان تشریف لائے۔ اس موقعے پر عمران خان یہ شکوہ بھی کرتے رہے کہ چوں کہ اپوزیشن انہیں پارلیمنٹ میں بات نہیں کرنے دیتی، لہٰذاحزبِ اختلاف کے شور شرابے کے باعث وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے۔

[pullquote]پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس[/pullquote]

گزشتہ برس پارلیمنٹ کے دو مشترکہ اجلاس بھارتی جارحیت کے خلاف یک جہتی کا مظاہرہ کرنے اور ایک نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدارتی خطاب کے لیے طلب کیا گیا۔ ستمبر 2019ء کو حسبِ روایت صدرِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز کیا۔ قبل ازیں، فروری میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلواما میں بھارتی سیکوریٹی فورسز پر حملے کے نتیجے میں پاک، بھارت تناؤ میں اضافے کے بعد اپوزیشن کی درخواست پر 28فروری کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔

دو روزہ اجلاس میں وزیرِ اعظم، عمران خان نے پالیسی بیان دینے کے بعد گرفتار بھارتی پائلٹ، ابھے نندن کو جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کرنے کا اعلان کیا۔ 5اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے اگلے ہی روز دو روزہ مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔

اس موقعے پر وزیرِ اعظم نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے ایوان کو آگاہ کیا۔ دریں اثنا، بھارتی حکومت کے اس متنازع اور یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے مشترکہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔

[pullquote]ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد[/pullquote]

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، قاسم سوری کی زیرِ صدارت 7نومبر کو ہونے والے اجلاس میں 11آرڈی نینس منظور کیے گئے، تو اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروا دی۔ اپوزیشن نے مؤقف اپنایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرڈی نینسز کو اسمبلی سے جلد بازی میں منظور کروایا۔

بعد ازاں، حکومتی رہنماؤں نے اپوزیشن اراکین سے رابطہ کیا اور پھر مذاکرات کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے منظور کردہ آرڈی نینسز واپس لینے کے بدلے اپوزیشن نے قاسم سوری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے کا فیصلہ کیا۔

[pullquote]چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد[/pullquote]

جولائی کے آغاز میں سینیٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرواتے ہوئے فوری طور پر سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی۔ چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد پر اپوزیشن جماعتوں کے 38اراکین نے دست خط کیے۔ اس کے ردِ عمل میں حکومتی اراکین پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آئے۔

حکومتی رہنماؤں نے متعدد مرتبہ اپوزیشن سے تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کی، تاہم متّحدہ اپوزیشن نے صادق سنجرانی کے مقابلے میں بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سربراہ، میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار نام زد کردیا۔

یکم اگست کو عدم اعتماد کی دونوں تحاریک پر خفیہ ووٹنگ کے لیے سینیٹ کا اجلاس طلب کیا گیا، تو حیرت انگیز طور پر 104ارکان پر مشتمل ایوانِ بالا میں 64اراکین کے ساتھ اکثریت رکھنے والی اپوزیشن صادق سنجرانی کے خلاف تحریک کے حق میں محض 50ووٹ حاصل کر سکی، جب کہ کام یابی کے لیے 53ووٹ درکار تھے اور یوں صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے عُہدے پر برقرار رہے ۔

دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ جب راجا ظفر الحق نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی، تو 64سینیٹرز نے اپنی نشستوں پہ کھڑے ہو کر اس کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم، خفیہ رائے شماری میں یہ ووٹ کم ہوکر 50رہ گئے۔ دوسری جانب صادق سنجرانی کے حق میں45ارکانِ سینیٹ نے ووٹ دیا، جب کہ ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد 36تھی۔ متّحدہ اپوزیشن نے تحریک کی ناکامی کا سبب، دباؤ کے نتیجے میں وفاداریاں تبدیل کروانے کے عمل کو قرار دیا ، جب کہ سینیٹ میں قائدِ ایوان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما، شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے چند سینیٹرز نے اپنے ووٹ کا دُرست استعمال کیا۔

دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا کے خلاف حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد بھی ناکام رہی، جس کی حمایت میں صرف 32ووٹ پڑے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی پر اپوزیشن رہنماؤں کے ردِ عمل سے یوں لگا کہ شاید انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اُن کے ’’اپنے‘‘ ہی اُنہیں دھوکا دے جائیں گے۔ اس دوران سب سے زیادہ سخت ردِ عمل میر حاصل بزنجو کی جانب سے سامنے آیا۔

[pullquote]آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع پر قانون سازی[/pullquote]

نومبر میں سپریم کورٹ نے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے حکومتی فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کی جانب سے کی گئی تین سال کی توسیع کے نوٹیفکیشن کو معطّل کرتے ہوئے اس حوالے سے 6ماہ میں قانون سازی کا حکم دیا۔ بعد ازاں، پاکستان مسلم لیگ (نون) کے پارلیمانی لیڈر، خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے مذکورہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کے ساتھ عدم تعاون کا اعلان کر دیا۔

یاد رہے کہ ایوانِ زیریں میں معمولی اکثریت رکھنے والی حکومت، اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آئینی ترمیم تو درکنار سادہ اکثریت سے بھی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ پھر کسی بھی قانون کی دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری بھی لازم ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن کی واضح اکثریت حکومت کو اس مرحلے پر ایک نئی کش مکش میں مبتلا کر سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے