اب میں پاکستان میں ہوں

لندن سے پاکستان لوٹے مجھے کئی دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی کیفیت کسی داستان کے سوتے جاگتے کردار کی سی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں پاکستان میں ہوں کہ لندن میں ہوں چنانچہ کچھ کرنے سے پہلے ہر دفعہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ ابھی کل کی بات ہے سینے میں ریشے کی زیادتی کی وجہ سے بار بار تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی مگر مجھے اس کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی مگر پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ میں تو پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے اللہ کاشکر ادا کرتے ہوئے حلق سے ’’اخ‘‘ کی آوا ز نکالی اور سڑک پر پچکاری مار دی۔ اس کے چھینٹے ایک شخص پر پڑے مگر تھینک گاڈوہ سائیکل سوار تھااور شکل سے بھی غریب ہی لگتا تھا۔ اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور آگے نکل گیا۔ مجھے بہت دنوں بعد یہ آزادی ملی تھی چنانچہ اس آزادی کو Celebrate کرنے کے لئے میں نے ایک دوست کے ساتھ شرط لگائی کہ سڑک پر کس کی تھوک زیادہ دور جاتی ہے چونکہ لندن میں کئی ہفتے قیام کی وجہ سے میرے پاس ’’اسٹاک‘‘ زیادہ تھا چنانچہ میں شرط جیت گیا۔
اسی طرح گاڑی چلاتے ہوئے میں ایک ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر رک گیا اس وقت رات کے بارہ بجے تھے سڑک پر نہ کوئی ٹریفک تھا اور نہ ٹریفک پولیس مگر کچھ ہی دیر بعد مجھے اپنی حماقت کا احساس ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ میں تو پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے گاڑی کو پہلے گیئر میں فل ریس دی جس کے نتیجے میں سرخ سگنل کہیں پیچھے رہ گیا۔ میں اس وقت اتنے اچھے موڈ میں تھا کہ اگر وہاں کوئی سپاہی کھڑا ہوتا تو میں اس کی ٹوپی بھی اُچک لے جاتا اور اس کی چندیا پر ایک زوردار ٹھاپ بھی لگاتا۔ میں نے بتایا تھا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہتا کہ میں پاکستان واپس آ چکا ہوں یا ابھی تک لندن ہی میں ہوں۔ چنانچہ اخبارات میں ’’خبر‘‘ کی جگہ بیانات دیکھتا ہوں اور گالی گلوچ والے کالم پڑھتا ہوں تو جھنجھلا جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لند ن کی صحافت کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟مگر پھر یاد آ جاتا ہے۔
میں اپنی جس کنفیوژن کا ذکر کر رہا ہوں لگتا ہے یہ مجھے لے ڈوبے گی کیونکہ گزشتہ شام ایک کار سوار ڈکیت ایک دکان میں ڈاکہ ڈالنے کے بعد ایک خوانچہ فروش کو کچل کر بھاگ رہا تھا اس نے اپنا پیچھا کرنے والے ایک موٹرسائیکل سوار پرفائرنگ بھی کی مگر نوجوان دوسرے شہریوں کی مدد سے بالآخر اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ سارا تماشا میری آنکھوں کے سامنے ہوا، میں اپنا فرض نبھانے کی خاطر دوسرے شہریوں کے ساتھ تھانے پہنچا تاکہ اس سارے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرائوں اور اپنی شہادت بھی قلمبند کرائوں مگر جب تھانیدار نے خود مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا اور سپاہی کو ’’لتر‘‘ لانے کا اشارہ کیا تو مجھے یاد آگیا کہ میں پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے وہاں سے دوڑ لگادی۔ اس طرح کے اور بہت سے واقعات گزشتہ چند دنوں میں میرے ساتھ پیش آچکے ہیں جن میں بجلی کا بار بار جانا، کھانے پینے کی اشیا سڑکوں پر بغیر ڈھانپے فروخت ہوتے دیکھنا، کسی کی جائیداد پر پوری دیدہ دلیری سے قبضہ کرنا، تاجروں کا ٹیکس دینے سے کھلم کھلا انکار کرنا، انکم ٹیکس وصول کرنے والوں کا مک مکا کرنا، اغوا برائے تاوان، نیز اس طرح کی اور بہت سی انہونی باتیں دیکھ کر میں حیران ہوتا تھا اور سوچتا تھا کہ میں کس ملک میں ہوں اور پھر یاد آ جاتا تھا کہ میں لند ن میں نہیں پاکستان میں ہوں اور پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ میرا خیال ہے مجھے آرام کی ضرورت ہے میرا لندن سے نان اسٹاپ پاکستان آنے کا فیصلہ غلط تھا، مجھے راستے میں کسی ایسے ملک میں قیام کرنا چاہئے تھا جس کی تھوڑی بہت ’’عادتیں‘‘ پاکستان سے ملتی جلتی ہوتیں مگر پھر میں نے سوچا کہ جو ہونا تھا، ہو گیا۔ اب پچھتانے میں کیا فائدہ؟ بہرحال اب تو جو ہونا تھا ہو گیا میرا ارادہ آئندہ چند روز گھر میں بند رہنے کا ہے۔ ان چند دنوں میں جب مجھے پوری طرح یقین ہو جائے گا کہ میں واپس اپنے پیارے وطن آچکا ہوں پھر گھر سے باہر قدم رکھوں گا یا کسی سے بات کروں گا۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے