زندگی اور ……….؟

انسان بھی عجیب شے ہے، گرمیوں میں جس دھوپ سے بھاگتا اور بچتا پھرتا ہے، سردیوں میں اسی دھوپ کی طرف لپکتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہاتھا۔رکے تو چاند، چلے تو ہوائوں جیسا ہےوہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا ہےگزشتہ چند روز سے تو سورج بھی ٹھٹھرا ہوا تھا۔

یوں محسوس ہوتا جیسے خود دھوپ کی تلاش میں ہے لیکن آج تو یوں لگتا ہے دھوپ خوب نہا دھو اور بن سنور کر آئی ہے۔ ٹیرس پر بیٹھ کر دھیمی دھیری دھوپ اوڑھ کے کالم لکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

مسلسل سوچ رہا ہوںکس موضوع پر لکھوں؟زندگی پہ لکھتے ہیں کہ زندگی تو ہے ہی دھوپ چھائوں کے درمیان آنکھ مچولی کا نام یا یوں کہہ لیجئے کہ زندگی آنسوئوں کی ندی پر تیرتے ہوئے قہقہے کا نام ہے۔

’’عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘‘زندگی….. زندگی سے پہلے کہاں ہوتی ہے اور پھر موت کے بعد کہاں چلی جاتی ہے؟ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ذرا قیمتی اور نازک چیزوں کی پیکنگ کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے۔

"FRAGILE; HANDLE WITH CARE”کاش زندگی کی بھی کوئی پیکنگ ہوتی جس پر لکھا جا سکتا۔”LIFE IS FRAGILE; HANDLE WITH PRAYER”زندگی جیسی نازک شے کے لئے PRAYER یعنی دعا سے بڑھ کر CARE یعنی احتیاط کیا ہوسکتی ہے؟

صوفیا کا قول ہے کہ ’’دعا قضا کو بھی ٹال سکتی ہے‘‘۔ اس قول میں بڑی حکمت ہے۔ ظاہر ہے دہریہ تو دعا نہیں مانگتا۔ مانگتا تو صرف وہی ہے جو اسے مانتا ہے، جو اسے پہچانتا ہے اور جو مانتا اور پہچانتا ہے، اسے اس بات کا شعور بھی ضرور ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے اور جو یہ جانتا ہے کہ مالک چاہتا کیا ہے…..

صرف اسی کے بارے میں اقبال نے کہا ہے۔’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘بات ناں ناں کرتے بھی کچھ گہری اور گھمبیر سی ہوتی جا رہی ہے تو اسے یہیں ادھورا چھوڑ کر واپس چلتے ہیں POGO کی طرف جو کہتا ہے …..’’ میں موت کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا تھا لیکن نجانے کیوں اسے میرے پیچھے لگا دیا گیا‘‘۔

CLARENCE DARROW کوئی بہت ہی شرارتی شخص ہوگا جس نے کہا تھا کہ ہماری زندگیوں کا تقریباً پہلا آدھا حصہ ہمارے والدین بسر کرتے ہیں اور دوسرا آدھا حصہ ہماری اولادیں کھا جاتی ہیں۔

اسی خیال کو ہمارے بانکے شاعر منیر نیازی نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیاعمر میر ی تھی مگر اس کو بسر اس نے کیاکچھ مجھ جیسے احمق بھی ہوتے ہیں۔

میرا ’’اعترافی بیان‘‘ حاضر ہے۔عمر اس سوچ میں ساری جائےزندگی کیسے گزاری جائےکعبہ اور کلیسا کے درمیان ہی شٹل کاک بنے رہے۔ہر دن کو زندگی کا آخری دن سمجھ کر گزارو اور یقین رکھو کہ بہت جلد تمہارا اندازہ سو فیصد درست ثابت ہوگا اور یہ بھی درست ہے کہ جو سچ مچ زندہ رہنے کے لئے زندگی گزارتے ہیں،

انہیں واقعی کبھی موت نہیں آتی۔’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیںگور پیا کوئی ہور ’’اور وہ جو احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا تھاکون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گامیں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا

معاف کیجئے شاعر کا نام یاد نہیں، شاعری یاد رہ گئی ہے ۔”THE CLOCK OF LIFE IS WOUND BUT ONCE,AND NO MAN HAS THE POWERTO TELL WHEN THE HANDS WILL STOP,AT LATE OR EARLY HOUR.NOW IS THE ONLY TIME YOU OWN;LIVE, LOVE, WORK WITH A WILL,PLACE NO FAITH IN TOMORROW;THE CLOCK MAY THEN BE STILL.

"نوجوان قارئین سے گزارش ہے کہ آخری چار مصرعوں پر فوکس کریں اور ایک سے زیادہ بار پڑھیں۔’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘

زندگی کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اسے زندگی سے بھی زیادہ کسی اہم شے کے لئے وقف کردیا جائے۔ کسی ایسی شے کے لئے جو زندگی سے کئی گنا زیادہ طویل ہو۔اِذَا جَاءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ’’نہ ایک ساعت پیچھے نہ ہی ایک ساعت آگے‘‘کہ پابندی اوقات کا مطلب کوئی موت سے پوچھے۔

دو چیز آدمی راستانند بزوریکے آب و دانہ دگر خاک گورزندگی امتحان ہے جسے امتیازی نمبروں سے پاس کرنا ضروری ہے ورنہ ’’ڈھنگ کی نوکری‘‘ نہیں ملے گی۔

WILLIAM BARCLAY وارننگ دیتے ہوئے کہتا ہے :”THE AWFUL IMPORTANCE OF LIFE IS THAT IT DETERMINES ETERNITY.”

واقعی زندگی کا اہم ترین پہلو ہی یہ ہے کہ کم بخت آخرت کا تعین کردیتی ہے۔زندگی بڑی رقم کا کرنسی نوٹ ہے اور تمہاری مرضی ہے اسے جیسے چاہو خرچ کرو لیکن یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم اسے صرف ایک بار ہی خرچ کرسکتے ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے