آپ کے نام ایک خط،فرصت ملے تو ضرور پڑھیں

گھڑی کی چھوٹی سوئی ہر ساٹھ سیکںد کے بعد جب دوبارہ اسی جگہ پہنچتی ہے تو منٹ پورا ہو جاتا ہے ۔ منٹ والی اپنا چکر پورا کر کے واپس پہنچتی ہے تو گھنٹہ پورا ہو جاتا ہے ۔ ہم نے گول پہیے میں تین سوئیاں فٹ کر کے مناسب فاصلے پر بارہ تک عدد لکھے اور اسے گھڑی کا نام دیا ۔ ساٹھ سیکنڈز کا منٹ بنایا اور ساٹھ منٹ کا گھنٹہ بنادیا ۔ چوبیس گھنٹے پورے دن کے بنائے ۔

ہم چاہتے تو بیس گھنٹے بھی بنا سکتے تھے ۔ ہم چاہیں تو اب بھی بنا سکتے ہیں، اس سے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے اور بہت سے نئے پیدا ہو جائیں گے ۔ گھنٹہ آگے پیچھے کرنے سے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم گھنٹوں کے ساتھ چلنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گھنٹہ آگے پیچھے کیا گیا تو روز و شب نیا ٹائم اور پرانے ٹائم کی بحث چلتی رہی ۔مغربی ممالک میں ہر سال ایسا ہوتا ہے ۔ وہ اس کے عادی ہو گئے ہیں ۔ وہاں یہ بحث نہیں چلتی ۔

خیر یہ سفر چل رہا ہے ۔ گھڑی ہر گھنٹے بعد دوبارہ اسی جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں سے چلی تھی ۔ گھڑی کے اس سفر کو صدیاں گزر گئیں ۔ سورج چاند تارے اربوں کھربوں سالوں سے یوں ہی سفر میں ہیں ۔ دن رات یہی ہیں ۔ روز وشب کی کہانی یہی ہے ۔ جہاں آج ہم ہیں ، وہاں کل کوئی اور تھا ۔ جہاں کل وہ تھے ، وہاں آج ہم ہیں ۔

اس دنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ہم حسرت کرتے ہیں اور کئی ممالک ایسے ہیں جو ہم تک پہنچنے کے لیے کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں ۔

2006 میں اریٹریا میں تھا ۔میں یہ واقعہ نہیں بھولتا . جیو نیوز کے کیمرا مین شبیر احمد بھی ساتھ تھے ۔ وزارت خارجہ کی جانب سے ایک نوجوان لڑکی ہماری میزبان تھی ۔ مجھے اب اس کا نام یاد نہیں رہا ۔ زندگی میں پہلی بار بلیک بیوٹی دیکھی تھی ۔ ہم کلونیل مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو سفید چمڑی کے سوا نہ حسن نظر آتا ہے اور نا ہی تہذیب دکھتی ہے ۔

خیر وہ ہمیں شہر دکھا رہی تھی ۔اریٹریا کے دارلحکومت اسمارا کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کے سامنے غالبا چار یا پانچ منزلہ عمارت تھی ۔ اس نے اچانک میرے گھنٹے پر زور سے ہاتھ مارا اور سامنے کی ایک عمارت دکھاتے ہوئے پرجوش لہجے میں پوچھنے لگی کہ کیا تمھارے ملک میں اتنی اونچی کوئی عمارت ہے ۔ اس کا تمتاتا ہوا چہرہ اب بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے ۔ میں نے اس کا جوش اور چہرے کی تمتاہٹ کو ماند کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ میں چاہتا تھا کہ اس کے چہرے کی تمتماہٹ زیادہ دیر تک میرے سامنے رہے ۔ میں نے اپنے وجود کو اس کی خوشی میں ڈھال دیا اور کہا کہ بہت سے عمارتیں تو اس سے بہت ہی چھوٹی ہیں اور کچھ اس کے برابر کی بھی ہیں ۔

ایک تو میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ لکھنا کچھ اور چاہتا ہوں اور نکل کہیں اور جاتا ہوں ۔ میری فیس بک پر اونلی می میں سیکڑوں ادھورے مضامین پڑے ہیں جنہیں میں نے لکھنا شروع کیا اور درمیان میں کہیں اور جا نکلا ۔ ایک دن میں دماغ میں کم از کم آٹھ دس مضامین تو آتے ہیں لیکن لکھ نہیں پاتا ۔ کبھی لکھتے لکھتے خیال ہی بدل جاتا ہے ۔ کبھی کبھی لکھتے لکھتے سوچتا ہوں کہ یہ لکھنے کا کیا فائدہ اور کبھی کبھی لکھتے لکھتے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ نظر پہلے ہی کمزور ہے ۔ مزید دھندلا جاتی ہے .

خیر میں کہہ رہا تھا کہ گھڑی اپنا سفر دوبارہ اسی جگہ سے شروع کر دیتی ہے ۔ اب زرا ایک لمحے کو رک کر سوچیں کہ کیا گھڑی نے نیا سفر شروع کیا ہے ۔ اگر یہ نیا ہے تو پچھلا بھی انہی راستوں پر کیا تھا ۔تو پھر یہ نیا کیسے ہوا ؟

اگر گھڑی آگے بڑھتی ہے تو دوبارہ وہیں کیوں پہنچ جاتی ہے ۔ کیا وہ ایک جگہ سے بڑھتی ہوئی دوبارہ اسی جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ اس بڑھنے کو کیا "بڑھنا” کہیں گے ۔ پہیہ گھومتا ہے ۔ گھڑی کی سوئیاں گھومتی ہیں ۔ تسبیح کے دانے گھومتے ہیں ۔ ہم اپنی دانست میں اگلے دن کو نیا دن سمجھتے ہیں ۔ہم کہتے ہیں کہ رات گئی بات گئی ہے ۔ کیا ہمارے کہنے سے واقعی رات اور بات چلی جاتی ہے ۔ کچھ نے کہا کہ یہ گنتی کا سفر ہے اور گنتی کا سفر جاری ہے ۔ کچھ نے کہا کہ یہ دائرے کا سفر ہے اور جاری ہے ۔ گنتی والے پچھلا مٹاتے جاتے ہیں اور نیا لکھتے جاتے ہیں ۔ وہ آج کل 2020 لکھ رہے ہیں ۔

دن نیا یا پرانا نہیں ہوتا ۔ ہوا اور فضا نئی یا پرانی نہیں ہوتی ۔ سورج ، چاند ستارے نئے پرانے نہیں ہوتے ۔ پانی ، بارش ، برف نئے یا پرانے نہیں ہوتے ۔ وہی ہوتے ہیں لیکن اپنی حالتیں بدلتے رہتے ہیں ۔ اپنے اوقات بدلتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح یہاں کا ساز وسامان بھی مستقل کسی ایک کے پاس نہیں رہتا ۔ حسن ، صورت ، لباس ، عہدہ ، شباب کچھ بھی نہیں ۔ جو تمھارے پاس تھا ، وہ آج میرے پاس ہے ، جو میرے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہو گا ۔

یہ گنتی ہے ۔ دائرے والے گنتی گنتے ہی نہیں ۔ وہ سوچتے ہیں یا شاید سمجھتے ہیں کہ کل کچھ نہیں ہوتا ۔ آج کچھ نہیں ہوتا ۔ موجود کچھ نہیں ہوتا ۔غائب کچھ نہیں ہوتا ۔ سچ کچھ نہیں ہوتا ۔ جھوٹ کچھ نہیں ہوتا ۔ زندگی کچھ نہیں ہوتی ، موت کچھ نہیں ہوتی ۔ ڈر ، خوف کچھ نہیں ہوتا ۔ ماضی ، حال ، مستقبل کچھ نہیں ہوتا ۔ لالچ ، حسد ، رشک ، رقابت کچھ نہیں ہوتی ، ترقی ، تنزلی ، خدشہ ، امکان کچھ نہیں ہوتا ۔ قریب ، دور ، ظاہر ، باطن کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ سب تمھارا وہم ہے ، یہ سب گمان ہے ۔

گمان سے نکلو ، وہم سے نکلو ، خود کو محسوس کرو ۔ اس کو محسوس کرو جو نہیں ہے ۔ اس کو محسوس کرو جو تمھارے اندر ہے ، جسے تم دیکھ سکتے ہو لیکن اسے چھو نہیں سکتے ۔ تمھارا خیال خوبصورت ہے ۔ تم خوبصورت ہو ۔ اس کائنات کا حسن خوبصورت ہے ۔ اگر زندگی میں کسی لمحے تمھارا دل محبت کا شناسا ہوا ہو تو تم خوش قسمت ہو ۔ اپنے دروازے کبھی محبت کے لیے بند نہ کرنا ۔ محبت کی راہوں میں کبھی رکاوٹ نہ بننا ۔ محبت کے سفر میں کبھی منزل کا پتا نہ پوچھنا ۔ کبھی بھی نہ پوچھنا ۔ پوچھ پوچھ کر محبت کرنے والے محبت نہیں کرتے ۔ سوچ سوچ کر محبت کرنے والے محبت نہیں کر سکتے ۔ ایسا کرنے والے اس دنیا میں کسی گناہ کی صورت میں دوبارہ آتے ہیں ۔ شک کی اولاد نہ بنو ، یقین اور اعتماد کی گود میں جنم لو ۔ لوگوں کو شک کرنے دو ، لوگ تکلیف دیں تو مسکرا دو ۔ انہیں معاف کر دو ۔ معاف صرف وہی کر سکتا ہے جو گنتی نہیں گنتا ۔ جسے گننا نہیں آتا ۔ گننے والے گنتے رہتے ہیں ۔ محبت کرنے والوں کے پاس گننے کا وقت ہی نہیں ہوتا ۔

پشتو کے مشہور شاعر اباسین یوسفزئی صاحب میرے استاد ہیں ۔ سر تا پا کا لفظ اگر چئیر مین نیب بدنام نہ کر چکے ہوتے تو میں ضرور کہتا کہ اباسین یوسفزئی صاحب سر تاپا محبت ہیں ۔ ایک دن میں بھوکا تھا ۔ میں مر سکتا ہوں ، کسی کو یہ جملہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بھوک لگی ہے ۔ ان سے کہا کہ سر مجھے بھوک لگی ہے ۔ اباسین صاحب نے پشاور یونیورسٹی میں پشتو ڈیپارٹمنٹ کے سامنے اپنے گھر کے حجرے میں بٹھایا ۔ خود کھانا لیکر آئے ۔ پھر گڑ والا قہوہ پلایا ۔ بیس برس پہلے کی بات ہے ۔ ان کا کہا ہوا نہیں بھولتا ۔ اپنے دروازے کی دہلیز پر رخصت کرتے ہوئے پشتو میں اپنا ایک شعر سنایا کہ ” میری یہ عمر تو محبت کے لئے انتہائی کم ہے ، لوگ نفرت کے لیے نہ جانے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں ”

نیپال کی اس پہاڑی پر نامو بدھا کا مندر ہے ۔ پہاڑی کے نیچے خوبصورت وادی ہے ۔ چائے کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہے ۔ کہتے ہیں کہ گوتم بدھ پہلے جنم میں شہزادے تھے ۔ اس پہاڑی پر آئے ۔ ان کا محافظ شیر اور اس کے پانچ بچے بھوکے تھے۔ انہوں نے چھری سے اپنے بائیں ہاتھ کی نبض کو کاٹ دیا اور شیر کے بھوکے بچوں کو اپنا خون پلایا ۔ شہزادہ مر گیا تھا ۔ دوبارہ گوتم بدھ کی صورت میں پیدا ہوا ۔ یہ کہانی کسی زاویے سے بھی سچ نہیں لگتی ۔ سامنے دکھ رہا ہے کہ اس میں سچ کہاں ہے لیکن یہ جھوٹ اتنا خوبصورت ہے کہ من یقین کو مچلتا ہے ۔

میں جانتا ہوں کہ میرے خیالات میں ربط نہیں ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ میرے اظہار میں ترتیب نہیں ہے ۔ لیکن میرے لفظوں میں محبت محسوس کیجیے ۔ خود سے محبت کیجیے ، کیونکہ آپ محبت کی پیداوار ہیں ، اپنے ماحول سے محبت کریں کیونکہ اس ماحول سے محبت کرنا آپ پر لازم ہے ۔ اپنے ہمزادوں سے محبت کریں کیونکہ وہ ختم ہوگئے تو محبت کس سے کرو گے ۔ تمھارا وجود محبت کے دم قدم سے آباد ہے ۔ ایک لمحے کے لیے سوچو ، اگر محبت نہ ہوتی تو کیا تم ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے