آپ خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں ؟

خوف کی ایک قسم فو بیاز کہلاتی ہے۔ اس میں سوشل فوبیا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ معاشرتی رویوں کی خرابی یا ناہمواری سے جنم لیتے ہیں۔

ایگورا فوبیا کسی خوفناک ماحول یا صورتحال میں پھنس جانے سے جنم لیتے ہیں۔

فوبیاز میں ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے۔ مختلف چیزوں، جانوروں، آوازوں کاخوف، آسمانی بجلی کی چمک دیکھ کر آج بھی اکثر بچے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ابھی وہ بجلی مجھ پر آگرے گی۔ سانپ،بچھو، کتے کاخوف کئی بار ٹی وی میں دیکھا کہ چڑیا گھر میں کسی شیر نے بچے کابازو کھالیااور اسے کھینچ کر جنگلے میں لے گیا اور چبا ڈالا۔ یہ خوف کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

دیہاتی علاقوں میں ایسے واقعات کسی اونٹ یا بیل سے وابستہ ہوتے ہیں کہ جس نے اپنے مالک کو ناراض ہوکر سینگوں سے لٹکا کر مار دیا یا اونٹ نے اس کے اوپر بیٹھ کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑ ڈالیں۔

اکثر بچے سرنج دیکھ کر ہی رونے لگتے ہیں۔ ٹیکا لگنے کا خوف ڈاکٹر کے پاس جانے، کڑوی دوا لینے کاڈر، آپریشن ہونے، جسم کی چیر پھاڑ کاخوف بھی اکثر فوبیابن جاتا ہے۔ خوف، سوچ، صلاحیت اور قوت کومتاثر کرتا ہے خوف اور فوبیا سوچ، صلاحیتوں اور کام کرنے کی قوت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

خوف زدہ اور کسی فوبیا میں مبتلا بچے راہنمائی کے منصب پر فائز نہیں کیے جاسکتے۔ موت کے خوف سے کبھی انہیں چکر آنے لگتے ہیں۔ الٹیاں بھی ہوسکتی ہیں اور سانس بھی ناہموار ہوسکتے ہیں۔ بار بار ان کیفیات میں مبتلا ہونے والا بچہ صحیح طور پر سوچنے کا فیصلہ کرنے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اعلیٰ درجے کے ہمت بھرے فیصلے کرنے سے ہی محروم ہوجاتا ہے۔

اصل میں یہ موت یا موت آنے کاخوف سب خوفوں کی ماں ہے۔ اور یہ بیسیوں شکلیں بدل کر بچوں کو ڈرا ڈرا کر ہی کمزور کردیتاہے۔کچھ خوف وقت اور سمجھ کے ساتھ کم ہوجاتے ہیں اور کچھ طویل مدت تک تنگ کرتے ہیں۔ ان کاعلاج کرانا پڑتا ہے۔

گھوڑے سے گرنے کا خوف آج تک نہیں گیا چھوٹی عمرکی ایک حیران کن بات آپ کو بتاؤں،اس عمرکی یادیں ساری عمر آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔ ہمارے والد صاحب سالوں پہلے اپنی گھوڑی پر جاتے ہوئے اندازے کی غلطی سے چھوٹی نہر جسے ہمارے ہاں مائنرکہاجاتا ہے( پنجابی میں یہ مینڈر کہلاتے تھے۔ یہ نہر مراد سے نکل کر چھوٹی نہر اور پھر کھالوں میں تقسیم ہوجاتا ہے) اپنی گھوڑی کو جمپ لگواتے ہوئے پانی میں جاگرے، مگر وہ خوف آج تک میرے اندر سے نہیں گیا ۔میں چاہنے کے باوجود گھڑسواری نہیں کرسکا۔مجھے ہمیشہ یاد رہا کہ نفع نقصان بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر نقصان تبھی ہوتا ہے، جب آپ کے اندر کسی کام کی مہارت کم ہوتی ہے اور جس کام کی مہارت کم ہواس میں رسک لیتے ہوئے دس بارسوچ لینا چاہیے۔ ایک دوبار موقع ملا تو صرف گھوڑے پر بیٹھ کر تصویریں بنواکر اُتر آیا۔

ایک بارہیرلکھنے والے مشہور شاعر وارث شاہ کے مزار کے قریب ایک گائوںجنڈیالہ شیرسنگھ میں اپنے ایک طالب علم کی دعوت پر گئے تھے، وہاں ان کی گھوڑی کی سواری کی، اپنے بچوں کو بھی بٹھایا۔تصویریں بن چکی تو اس نے اپنے مزارع سے کہا ’’ سر کوکھیتوں کا چکر لگوادو‘‘ میں اس دعوت اور آفر کا فائدہ نہیں اٹھاسکا۔ خوف نے سر اٹھا کر پھر ڈرا دیا کہ ابوگرگئے تھے تم بھی گرو گے۔ اس سے پہلے جھیل سیف الملوک کی سیر کے بعد گھڑسواری کا موقع ملا تو وہاں بھی گھوڑے کے مالک کے کہنے کے باوجود گھوڑے کو دوڑانے اور مزہ لینے سے محروم رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے