کون سوچ سکتا تھا کہ وہاں بھی موت آ جائے گی

پاکستان میں رواں برس موسم سرما کی شدت معمول سے کہیں زیادہ رہی ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی شدید برفباری کا نتیجہ برفانی تودے گرنے کی شکل میں نکلا جس کی زد میں آ کر درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وادی نیلم میں سب سے زیادہ نقصان سرگن کے علاقے میں ہوا ہے جہاں کم از کم تین دیہات ان تودوں کی زد میں آئے ہیں۔ سرگن بکوالی سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ ارشاد کا خاندان بھی متاثرین میں شامل ہے۔

ارشاد نے صحافی ایم اے جرال کو بتایا کہ ان کے رشتہ داروں کے پانچ خاندان لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کے لیے پہاڑوں پر بنے ہوئے اپنے مکانات سے کچھ دور ایک اور رشتہ دار کے گھر منتقل ہوئے تھے لیکن موت ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئی۔

ارشاد کا کہنا تھا ’جس جگہ وہ منتقل ہوئے تھے وہ بھی ایک پانچ منزلہ عمارت تھی مگر وہاں کبھی زندگی میں برفانی تودہ نہیں آیا تھا۔ 13 جنوری کو دن دو بجے اسی گھر پر برفانی تودہ آ گرا اور سب لوگ اس کے نیچے دب گئے۔‘

ارشاد کے مطابق اس برفانی تودے نے بکوالی گاؤں کے 15 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق مذکورہ پانچ منزلہ عمارت میں موجود 30 میں سے 18 افراد تودے کی زد میں آ کر موت کا شکار ہو گئے اور 12 زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میرا خاندان جس جگہ موجود تھا وہ جگہ بھی خطرناک تھی اور جو لوگ منتقل ہو رہے تھے، انھوں نے بھی اصرار کیا تھا مگر میں منتقل نہیں ہوا۔ میں خوف سے کبھی گھر کے اندر اور کبھی باہر گھوم رہا تھا کہ کس وقت تودہ آئے گا اور ہم سب کو ساتھ لے جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تودہ گرتے ہی شور ہوا۔ میں اپنے گھر کی چھت پر تھا۔ فوراً بھاگا اور پھر گاؤں والوں کے ساتھ مل کر زخمیوں سمیت لاشوں کو نکالا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہاں بھی موت آ جائے گی۔‘

12 سالہ ثمینہ ان افراد میں سے شامل ہیں جنھیں تودے تلے دبنے والی عمارت سے واقعے کے تقریباً 20 گھنٹے بعد زندہ نکالا گیا۔اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا وہ انگیٹھی کے پاس بیٹھی تھیں کہ اچانک مکان کے اوپر کچھ زوردار چیز گری۔ ‘ہم کافی آگے جا گرے اور گرم انگیھٹی میری ٹانگوں پر لگی اور میں بے ہوش ہو گئی۔‘

ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں برفباری کی وجہ سے روزمرہ زندگی شدید متاثر ہوئی ہے اور ہر وقت لینڈ سلائیڈ یا برفانی تودے گرنے کا ڈر لگا رہتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم ایک رشتہ دار کی نماز جنازہ ادا کرنے جا رہے تھے تو اس وقت بھی برفانی تودہ آیا۔ اس واقعے میں تمام افراد بچ گئے تاہم اس کے بعد ایک مرتبہ پھر تودہ آیا جس نے ہمارے بازار میں موجود میری دکان سمیت دیگر دکانوں کو تباہ کر دیا۔’

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود کے مطابق برفانی تودوں کی زد میں مکانات کے علاوہ ایک مسجد، مقامی بازاروں کی 17 دکانیں اور سات گاڑیاں بھی آئی ہیں۔

لوات کے مقامی مفتی عیبد الرحمن کے مطابق لوات اور ضلع نیلم کے مخلتف علاقوں میں وقفے وقفے سے چھوٹے بڑے برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’تحصیل ہیڈ کوارٹر شاردہ کے علاقے سُرگن کے دیہاتوں سیری، بگوال، اور ساگام، میں رات اور پھر صبح کے اوقات میں برفانی تودے گرے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ نسبتاً دور دارز کی ایک یونین کونسل گریرس کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے وہاں پر مواصلاتی رابطہ بھی ممکن نہیں۔ وہاں 10 فٹ تک برف پڑ چکی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ وہاں لوگوں کس حال میں ہیں۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ اس یونین کونسل میں کم از کم دس سے بارہ ہزار لوگ آباد ہیں۔

[pullquote]متعدد دیہات متاثر رابطہ منقطع[/pullquote]

’برفباری سے اپر نیلم ، لوات، ہلمت، تاؤ بٹ، تیجیاں، ماناتھ، اور سرگن کے علاقوں میں لوگ زیادہ متاثر ہوئے۔ زیادہ نقصان سُرگن کے علاقوں سُرگن سیری، اور سُرگن بگوال میں ہوا جہاں برفانی تودے گرنے سے کم از کم 42 افراد ہلاک ہوئے۔‘ یہ علاقہ نوری ٹاپ اور ناران کے ساتھ لگتا ہے۔‘

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا کہ ’برفانی تودے گرنے سے وادی نیلم کے ان علاقوں میں کم از کم 97 مکانات مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں جبکہ 63 کے قریب مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 52 گھرانے شدید متاثر ہوئے ہیں۔‘

شاہد محمود کے مطابق برفانی تودوں کی زد میں مکانات کے علاوہ ایک مسجد، مقامی بازاروں کی 17 دکانیں اور سات گاڑیاں بھی آئی ہیں۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موسم کی سختی اور علاقے تک بروقت رسائی نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خطرہ ہے۔

لوات کے مقامی مفتی عیبد الرحمن کے مطابق لوات اور ضلع نیلم کے مخلتف علاقوں میں وقفے وقفے سے چھوٹے بڑے برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’تحصیل ہیڈ کوارٹر شاردہ کے علاقے سُرگن کے دیہاتوں سیری، بگوال، اور ساگام، میں رات اور پھر صبح کے اوقات میں برفانی تودے گرے۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ نسبتاً دور دارز کی ایک یونین کونسل گریرس کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے وہاں پر مواصلاتی رابطہ بھی ممکن نہیں۔ وہاں 10 فٹ تک برف پڑ چکی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ وہاں لوگوں کس حال میں ہیں۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ اس یونین کونسل میں کم از کم دس سے بارہ ہزار لوگ آباد ہیں ہیں۔

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا جو مکانات برفانی تودوں کی زد میں آئے ہیں وہ لکڑی اور سی جی آئی شیٹس (ٹین کی چادروں) کے بنے ہوئے ہیں۔ جو برفباری کے لیے تو موزوں ہیں تاہم برفانی تودے گرنے کی صورت میں زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔

[pullquote]امدادی کاموں میں دشواری[/pullquote]

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا کہ مسلسل برفباری کی وجہ سے امدادی کاموں میں کم از کم ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ ’تین ہیلی کاپٹرز کی مدد طبی عملے کے چند اہلکار اور امدادی سامان جن میں کمبل، پلاسٹک شیٹس اور گرم کپٹرے متاثرہ علاقوں تک پہنچائے گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کے برفباری کی شدت کی وجہ سے قریبی علاقوں کے لوگ ہی بمشکل برفانی تودے سے متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن بغیر کسی مشینری کے لوگوں کی مدد کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شدید برفباری کے باعث ایک گھر سے دوسرے گھر تک جانا بھی دشوار ہے بعض جگہوں پر سات فٹ سے زیادہ پرف پڑ چکی ہے جبکہ مسلسل برفباری ہو رہی ہے۔

لوات کے مقامی عبید الرحمن نے بتایا کہ سُرگن میں ماضی میں بھی برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان کے بقول ’سُرگن کے علاقے سیری میں جنوری 2005 میں برفانی تودہ گرنے سے کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں آنے والے برفانی تودوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے اس علاقے کو ’میّتاں والی سیری‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ‘

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’سنہ 2005 کے زلزلے میں تباہی کے بعد بھی لوگوں کو اسی علاقے میں دوبارہ آباد کیا گیا۔ حالانکہ اب یہاں برفانی تودے زیادہ خطرناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔ عمودی پہاڑوں پر اب درخت بھی کم ہیں اور برف باری کی شدت کبھی کبھار کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ ‘

[pullquote]متاثر ہونے والے سکول کے بچے[/pullquote]

برفانی تودوں کا شکار ہونے والوں میں سکول کے بچے بھی شامل ہیں۔ پیر کی صبح لوات گاؤں میں سرمائی چھٹیوں کے بعد سکولوں کا پہلا دن تھا جب بچے سکول جا رہے تھی۔ اس دوران برفانی تودہ گرنے سے چند بچے بچیاں اس میں دب گئے۔ دیگر کو تو ریسکیو کر لیا گیا تاہم نویں کلاس کی ایک طالبہ ہلاک ہو گئی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرد پہاڑی علاقوں میں عموماً سالانہ چھٹیاں موسم سرما میں دی جاتی ہیں کیونکہ شدید برفباری کے باعث آمد و رفت متاثر ہوتی ہے تاہم بعض علاقوں میں اب بھی باقی ملک کے طرح گرمیوں میں ہی چھٹیاں ہوتی ہیں۔

[pullquote]کوئٹہ بلوچستان کی صورتحال[/pullquote]

سجاد احمد ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ تین دن سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں برفباری کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔

وہ ٹرالر کے ڈرائیور ہیں۔ انہیں کوئٹہ سے ایران سبزی لے جانا تھا لیکن وہ تاحال کوئٹہ سے 40 کلومیٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے کیونکہ پہلے ان کی گاڑی دو روز تک کوئٹہ کے قریب لک پاس کے علاقے میں پھنسی رہی لیکن دو روز کے بعد وہ شیخ واصل پہنچے تو ایک بڑی گاڑی الٹنے سے روڈ کی بندش کے باعث آگے نہیں جاسکے۔

ٹرک ڈرائیور نذر محمد بھی شیخ واصل کے علاقے میں پھنسنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ نوشکی سے کوئٹہ کی جانب آرہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سردی کی وجہ سے ڈرائیوروں سمیت دیگر افراد کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ صرف سجاد احمد اور نذرمحمد کی کہانی نہیں بلکہ ان کی طرح بڑی تعداد میں ڈرائیور اور مسافر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ برفباری کے بعد شاہراہوں پر پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔

برفباری کے دو روز بعد اگرچہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں کے درمیان اہم قومی شاہراہوں کو کھول دیا گیا ہے لیکن شدید سردی کے باعث ان پر پھسلن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔

[pullquote]بلوچستان کے کون کونسے علاقے برفباری سے متاثر ہیں؟[/pullquote]

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں طویل عرصے بعد ایک بڑے علاقے میں برفباری ہوئی ہے۔

بلوچستان کے جن اضلاع کے مختلف علاقوں میں برفباری ہوئی تھی ان میں قلات، مستونگ، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، زیارت، ہرنائی پشین اور قلعہ عبد اللہ شامل ہیں۔

ان 7 اضلاع میں شدید برفباری کی وجہ سے سنو ایمرجنسی کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔

انہی اضلاع کے مختلف علاقوں میں شاہراہیں اور دیگر رابطہ سڑکیں بند ہیں۔

[pullquote]ٹریفک کی روانی کن علاقوں میں متاثر ہے؟[/pullquote]

ان 7 اضلاع کے جن علاقوں میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں اہم شاہراہیں متاثر ہیں ان میں کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ایران کے درمیان لک پاس ، مستونگ اور شیخ واصل ، کوئٹہ اور ژوب کے درمیان کان مہترزئی اور خانوزئی، کوئٹہ اور سبّی کے درمیان دشت اور کولپور جبکہ کوئٹہ اور افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کے درمیان کوژک شامل ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق برفباری کے بعد شدید سردی کی وجہ سے برف جم جانے کے باعث پھسلن سے ان علاقوں میں گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکل ہے۔

اس صورتحال کے باعث گشتہ شب قلعہ سیف اللہ میں کان مہترزئی کے علاقے میں کوئٹہ پنجاب اور کوئٹہ پشاور کے درمیان مسافروں کی بڑی تعداد پھنس گئی تھی۔

ایک اندازے کے مطابق دونوں اطراف کی جانب سے پھنسنے والے افراد کی تعداد 300 سے 500 کے لگ بھگ تھی۔

ریسکیو کے کام کی نگرانی کرنے والے محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے اہلکار سید امین نے بتایا کہ اس علاقے میں پھنسے ہوئے تمام افراد کو ریسکیو کرکے مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے کھانا بھی فراہم کیا جارہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے جن علاقوں میں شاہراہیں بند تھیں بلڈوزروں اور ٹریکٹروں کو استعمال کرکے برف کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم پھسلن کے باعث ٹریفک کی روانی اب بھی متاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھسلن کے مسئلے کو دور کرنے کے لیے شاہراہوں پرنمک کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث ان شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی جلد بحال ہوجائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے