پختون تحریکوں کو کیوں نقصان پہنچایاگیا؟

70سال قبل پاکستان کے قیام کے بعد افغان اور بھارتی حکومت کی جانب سے حمایت کے بعد، جس طرح اس وقت کی پختون تحریکوں کو نقصان پہنچایاگیا، آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود پختونوں کی تحریک کو اسی طرح عوام کے ذہن میں مشکوک بنایاجارہاہے۔

1948ء میں پاکستان کے دستورساز ایوان کے رکن کی حیثیت سے حلف برداری کے کچھ عرصہ بعد پختون تحریک کے سربراہ خان عبدالغفارخان (باچاخان) پرالزام لگایاگیا، کہ انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کیلئے پختونستان تحریک شروع کررکھی ہے، جس کی پاداش میں انہیں 1952ء تک پابندسلاسل کیاگیا، 2019ء میں پختون تحفظ مومنٹ کے علی وزیر اور محسن داوڑکوخڑکمرکے واقعے میں گرفتارکرنے کے بعد ہری پورجیل بھیجاگیا ،1951ء میں باچاخان کی حمایت کے لئے اس وقت کی افغان حکومت اور 2019ء میں علی وزیر اورمحسن داوڑکی رہائی کیلئے ایک مرتبہ پھر افغان پارلیمنٹ میں آوازاٹھائی گئی ، جس کے باعث 70سالہ تاریخ کودہراتے ہوئے اس وقت اورموجودہ تحریکوں کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنایاگیا ۔

[pullquote]70سال قبل کیاہواتھا؟؟[/pullquote]

1951میں جب باچاخان پابندسلاسل تھے، توافغانستان کے علاوہ دہلی میں آل انڈیا پشتون جرگے کاانعقادکیاگیا، محقق ڈاکٹر نفیس الرحمن کے مطابق اس وقت جرگے میں بھارت میں متعین افغان سفیر سردارنجیب اللہ خان نے بھی شرکت کی اس جرگے میں متعددقراردادیں پیش کی گئیں، جس میں اس وقت خان عبدالغفارخان کی رہائی کامطالبہ کیاگیا، اسی طرح آل انڈیاپشتون جرگے نے جامع مسجد دہلی کے سامنے آزاد پارک میں پختونستان کا جھنڈالہرایا اورپختونوں کے متعلق باچاخان کی خدمات کو سراہا بعدازاں دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرہ کیاگیااورآزادپختونستان کے نعرے لگائے گئے۔افغانستان کی جانب سے 1952میں شائع کئے گئے کابل نمبر306 والیم21 میں باقاعدہ طور پر اس کا ذکر ہے۔

1951میں جامع مسجد دہلی کے باہر افغان سفیر کے زیر صدارت آزاد پارک میں پشتونستان کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے ۔ فوٹو : ڈاکٹر نفیس الرحمان

[pullquote]2019ء میں شمالی وزیرستان میں کیاہواتھا؟؟[/pullquote]

مئی2019ء میں شمالی وزیرستان میں خڑکمرچیک پوسٹ پر پختون تحفظ مومنٹ اور سکیورٹی فورسزکے مابین تکرارہوئی جس کے بعد فائرنگ کے نتیجے میں متعدد مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے ۔ سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیاکہ پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے لوگوں کو سکیورٹی فورسزکیخلاف ورغلایاجسکے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا واقعے کے کچھ دنوں بعد علی وزیر اورپی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے دوسرے ایم این اے محسن داوڑکوگرفتارکیاگیا ، ان دونوں اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے بعد افغانستان سمیت یورپی شہربرلن ،لندن ،برسلزاورامریکہ کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے، ان مظاہروں میں باقاعدہ طور پر افغانستان کے جھنڈے اٹھائے گئے تھے اور علی وزیر اور محسن داوڑکی رہائی کامطالبہ کیاگیا۔ محققین کی نظرمیں 70سال قبل افغانستان اور انڈیاکی جانب سے باچاخان کی حمایت کرکے ان کے لئے آسانیاں پید اکرنے کی بجائے، جومشکلات پیداکی گئی تھیں 2019ء میں وہیں مشکلات پی ٹی ایم کیلئے پیدا کی گئیں۔

[pullquote]شخصیات ،واقعات ،اصول اورکھلاڑی کون تھے؟؟[/pullquote]

اس وقت کی شخصیت باچاخان اور خان عبدالصمد خان تھے ،2019ء میں گرفتارشخصیات علی وزیراورمحسن داوڑتھے، تاہم باچاخان پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹرسہیل کہتے ہیں کہ باچاخان کی تحریک مکمل طور پرسیاسی تھی، جبکہ پی ٹی ایم کی تحریک مکمل طور پر غیرسیاسی ہے، اس لئے شخصیات اور تحریکوں کا موازنہ نہیں کیاجاسکتاان کے مطابق دونوں تحریکوں میں واقعات کا موازنہ کیاجاسکتاہے اس وقت بھی پختون تحریک تھی اور 70سال بعدبھی پشتون تحریک کے رہنماؤں کو نشانہ بنایاگیا ، تاہم پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرسید عالم محسود کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے رہنمائوں کیلئے کئے گئے مظاہروں میں افغان جھنڈوں کو لہرانے سے تحریک کونقصان پہنچا اوراب پابندی لگادی گئی ہے کہ یورپ یاامریکہ میں مظاہروں کے دوران افغان جھنڈانہیں لہرایاجائے گا ۔ اسی طرح دونوں تحریکوں کے اصول پختون رہنمائوں کی گرفتاری کے بعدان کی رہائی تھی لیکن ڈاکٹرسہیل کے مطابق کھلاڑی آج بھی اسی طریقے سے پختونوں کے خلاف ذہنوں کو پراگندہ کررہے ہیں جس طرح آج کیاجارہاہے، لیکن باچاخان اورمنظورپشین کاموازنہ کسی بھی طریقے سے ممکن نہیں۔

دہلی میں آل انڈیا پشتون جرگہ کی تقریب 1951 فوٹو: ڈاکٹر نفیس الرحمان

عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنمانے نام نہ بتانے کی شرط پربتایاکہ افغانستان کی جانب سے اس وقت باچاخان کی حمایت کے نتیجے میں جس پروپیگنڈے کاآغاز ہواتھا باچاخان ساری عمر اس سے اپنی جان نہ چھڑاسکااوریہی کام اسوقت پی ٹی ایم کے ساتھ کیاجارہاہے، لیکن پی ٹی ایم کے بیانیے اورباچاخان کے بیانیے میں زمین آسمان کا فرق ہے، باچاخان مکمل طور پر عدم تشددکے پیروکارتھے، 1969ء میں انہوں نے جب دیکھا کہ ان کے صاحبزادے ولی خان ریاست کے خلاف سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں توانہوں نے پاکستان چھوڑ کر افغانستان میں قیام اختیار کی لیکن منظورپشین اورعلی وزیر کا رویہ دیکھیں تو وہ لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف ورغلانے میں بھرپورکوشش کررہے ہیں بیشک پی ٹی ایم ایک غیرسیاسی تحریک ہے لیکن جلسوں میں اس کا لب ولہجہ اتنا درشت ہوتاہے کہ ریاستی اداروں کا کردارمشکوک ہوجاتاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے