میری امیدوں کا قاتل کون

ایک وقت تک یہ شور تھا کہ جلد وقت آنے والا ہے کہ جب سب تبدیل ہوجائےگا،غریب کو روزگار ملےگا، مسکین کو چین ، بیمار کو دوائی اور علم کے بھوکوں کو علم کی دولت، خوفزدہ کو تحفظ ، وسائل بڑھیں گے، چور پکڑے جائیں گے، انصاف ہوگا، پاکستان کی قسمت بدل جائےگی ، گرین پاسپورٹ کی حرمت بڑھے گی ، ڈیم بنیں گے، کھیت ہرے بھرے ہوں گے، کسان خوشحال اور ترقی کرےگا، مزدور اپنی بنیادی ضروریات کےلیے در، در کی ٹھوکریں نہیں کھائےگا، بیرون ملک پاکستانی اپنے سر زمین پر واپس آئیں گے، اپنے بچوں کا رزق اپنے وطن سے کمائیں گےاور خوشی خوشی رہیں گے، ادارے انصاف دیں گے، ہر بندہ اپنے فرائض کو ایمانداری سے انجام دے گا، یہ سڑکیں پھیلیں گیں ، یہ فیکٹریاں دوبارہ سے چلیں گی ، غریب اس غربت کی لکیر سے آگے بڑھے گا، نوجوان کو میرٹ پر نوکریاں ملیں گی، بے گھر کو سر چھپانے کےلیے چھت ملے گی ، یتیم بچوں کی کفالت ہوگی ، بیواؤں کو آسان زندگی بسر کرنے کےلیے سہولت ملےگی ، لیکن !

ڈیڑھ سال بعد ان سب میں کچھ بھی نہ ہوسکا، غریب آج بھی رو رہا ہے، بیمار آج بھی در، در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ، علم کی دولت نایاب ہے، خوفزدہ تو آج بھی تحفظ کے لیے چیخیں مار رہے ہیں ،انصاف آج بھی مشکل ہے، پاسپورٹ تو اسی طرح بے توقیر ہے، کھیت تو اناج ہی نہیں اُگا رہے ، مزدور آج بھی چوک چہراہوں میں امید لگائے بیٹھا ہے کہ کوئی آئے اور میں اپنے بچوں کا رزق پورا کرسکوں ، آج بھی غریب ماں باپ اپنا لخت جگر ملک سے باہر بھیج رہے ہیں، کہ دو وقت کی روٹی پوری ہوسکے، بیرون ملک پاکستانی آ ج پھر ناامید ہوچکے ہیں کہ شاہد ہم زندہ واپس نہ جاسکیں ، آج بھی نوجوان گھرکا کفیل بیرون ملک سے لاش کی صورت اپنے اہل عیال تک پہنچ رہےہیں، گھر کی جو چھت تھی وہ بھی چھین لی گئی ، میرٹ کی نوکری کا آسرا نوجوان کی عمر کی حد سے پار ہوچکا ہےاور وہ نوجوان اپنے ہی گھر میں بوجھ بن کر رہ گئے ہیں ، یتیم بچے سردی میں  ٹھٹھرتے باپ کا بوجھ ہلکا کرتا نظر آرہا ہے، بیوائیں چند سو کے لیے در در پھر رہیں ہیں .

کون ہوگا اس کا ذمیدار! کیا ہم ڈیڑھ سال بعد حکومت کے اس جواب سے مطمئن ہوجائیں کہ یہ سب کچھ پچھلوں نے کیا ہے، ڈیڑھ سال بعد بھی یہ سنیں کہ آٹا نہیں ہے، چینی نہیں ہے، آج کیوں ٹرینیں لیٹ ہیں ، آج بھی نیلی بتی بھانجے بھتیجے لگائے لگائے پھر رہے ہیں، کیوں ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے، کیوں ہماری امیدوں کا قتل کیا جارہاہے، محترم وزیراعظم پاکستان کیا اس سوال کا جواب دیں گے، آپ کے اخراجات کم کرنے سے میر ے گھر کا چولہا چلا یا بجھا!
مجھے یہ تو بتائیں وہ بھینسیں گاڑیاں نیلام کی گئی ، کیا مجھے ہر دفعہ ایک امید کی کرن دکھا کر موت دی جارہی ہے، میں آج بھی چوک کے اوپر رومال ڈالے چند اوزار رکھے اپنے رزق کےلیے دربدر ہوں ، جب بھی میرا بچہ بیمار ہوتا ہے تو مجھے سرکار اپنے کاونٹر پر گھنٹوں بٹھائے رکھتی ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ جاؤ شام کو میرے کلینک آجانا، جناب وزیر اعظم صاحب میں ایک ان پڑھ ہوں ، مجھے فرصت ہی نہیں ملتی کہ میں سٹی پورٹل پر کوئی گلہ شکوہ کرسکوں ، میرے پاس کھانا پورا کرنے کےوسائل نہیں میں کہاں سے 30 ہزار کا موبائل لوں، اس پر 500 روپے کا بیلنس ڈال کر آپ کو سٹی پورٹل پر شکایت کروں ، جناب وزیراعظم صاحب میں تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہوں ، میں کہاجاؤں، جہاں سے مجھے اپنی چھت مل سکے، میں  نے بڑی مشکل سے وقت نکال کرآپ کو ووٹ دیا ، لیکن آج بھی اس دن پر مجھے افسوس ہورہاہےکہ میں نے اس دن دھاڑ نہیں لگائی ، کیونکہ الیکشن ہورہے تھے، میں گھر گیا میرے بچوں نے مجھ سے پوچھا کہ بابا جی آ ج آپ نے ہمارے لیے کھانا نہیں لایا ، بیوی نے کہا میری دوا بیٹی نے کہا میری کتابیں اور چھوٹے بیٹےنے کہا میرا کھلونا ، میں نے کہا بچوں آج میں اپنی محتاجی دور کرنے کےلیے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے ، آج میں اس محرومی سے دوری کےلیے پرچی کی طاقت استعمال کرکےآیا ہوں ، ایک امید کے ساتھ وقت گزارتا رہا ، لیکن آج بھی میں چوک پر اوزار رکھے رزق اور گھر والوں کی تمام ضروریات کو پوری کرنے کے لیے دربدر ہوں ۔

میرے بچے آج تک پوچھتے ہیں ، باباجان وہ پرچی کا کب فائدہ ہوگا کہ ہم اسکول جائیں گے، ہم اچھے اچھے کپڑے پہنیں گے، ہمارا اپنا گھر ہوگا، اس پرچی سے کب ہمیں امی کی دوا ملے گی ، میں ہمیشہ کی طرح شام کو نا امید سی صورت بنا کر سر جھکا لیتا ہوں ، وزیر اعظم صاحب پچھلوں نے تو ہمارا سکھ چین چھینا ، گھر بار چھینا ، امن چھینا، سب مانا لیکن آپ نے تو ہمارا مان تھوڑ دیا، ہمار ی امید کی کرن پر پانی پھیر دیا ، ایک امید تھی جس پر روز ہم زندگی گزار لیتے تھے، لیکن وہ امید بھی ختم ہوچکی ہے، وزیراعظم صاحب یقین جانئیے، آپ ہماری امید وں کے قاتل نکلے، یہ امید تھی جس کے بھروسے میں زندہ تھا، روز اس امید پر ہی جیتا تھاکہ اپنے بچوں کا کل اچھا ہوجائےگا کی امید کے سہارے آج کا دن گزار لیتا تھا، یقین جانیے وزیراعظم صاحب آپ نے میری اس امید کو قتل کر دیا ، شاہد وہ ایوان جس میں آپ جا کر چھپ گئے ہیں، اس کا خمار ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ جو بھی جاتا ہے ہمیں بھول جاتاہے، مجھے میرا ایک دوست جس کی مدد سے میں نے ووٹ ڈالا تھا، روز مجھے امید دلاتا تھا کہ جلد اچھا ہونے والا ہے، 90 دن میں سب بدل جائے گا، بڑی مشکل سے وہ 90 گزارے، وہ دوست بھی بیچارا کچھ ناامید سا ہوگیا ہے ، میں اس کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اب اس سے پوچھتا ہی نہیں لیکن وزیراعظم صاحب آپ کی خواہش تھی کہ آپ وزیر اعظم بن گئے، آپ کی اللہ نے سن لی لیکن یقین جانیے میری اب بھی کوئی نہیں سن رہا ، آپ کی خواہش پوری ہوگی ، لیکن ہماری ساری خواہشیں روز دم توڑ رہی ہیں ، شاہد میں بھی اپنی امید کے قتل کے بعد شاہد اسی دکھ سے دنیا سے چلا جاؤں لیکن قیامت والے دن میں آپ سے سوال ضرور کرونگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے