دواؤں سے بھرے، خون کے ’اسمارٹ خلیات‘ تیار کرلیے گئے

اونٹاریو: کینیڈین ماہرین نے ایسی ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جس کے ذریعے خون کے سرخ خلیوں میں دوا بھری جاسکے گی۔ پھر انہیں انجکشن کے ذریعے انسانی جسم میں داخل کردیا جائے گا جہاں وہ خود ہی اپنا راستہ تلاش کرتے ہوئے مطلوبہ ہدف تک پہنچ کر کھل جائیں گے اور اپنے اندر بند دوا کا اخراج کردیں گے۔ اس طرح دوا بہتر طور پر اثر انداز ہوگی اور اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی کم سے کم ہوں گے۔

یہ منفرد ٹیکنالوجی اونٹاریو، کینیڈا میں مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے وضع کی ہے۔

مختلف بیماریوں کا علاج صرف اس وجہ سے نہیں ہو پاتا کہ ان کی دوائیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن بیماری کی وجہ بننے والا عضو، ہمارے جسم میں اتنے اندر کی طرف ہوتا ہے کہ منہ یا انجکشن کے ذریعے جسم میں داخل کی گئی دوا اس تک پہنچ ہی نہیں پاتی اور اگر پہنچتی بھی ہے تو بہت کم مقدار میں؛ جبکہ وہ اپنے راستے میں غیر متعلقہ اعضاء تک پہنچ کر انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

خون کے سرخ خلیات اس حوالے سے ہمارے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ساخت اور لچک کی بناء پر جسم کے ہر عضو تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں۔ اگر کسی طرح ان میں دوا بھر دی جائے اور انہیں اس قابل بھی بنا دیا جائے کہ وہ اپنا ہدف خود تلاش کریں، اس تک پہنچ کر پھٹ جائیں اور اپنے اندر بھری ہوئی ساری دوا صرف مطلوبہ مقام ہی پر خارج کریں، تو اس سے دوا کی کم مقدار بھی نہ صرف زیادہ مؤثر ثابت ہوگی بلکہ اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بہت کم رہ جائیں گے۔

مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہی کیا ہے: انہوں نے خون کے سرخ خلیوں کی بیرونی جھلی (سیل میمبرین) میں کچھ اس طرح سے تبدیلی کی کہ کچھ خاص اعضاء، بافتوں یا جرثوموں (بیکٹیریا) سے چپکنے کے قابل ہوگئے۔ علاوہ ازیں، انہیں اس قابل بھی بنایا گیا کہ وہ اپنا اندرونی مواد نکال کریں، جس کی جگہ انہیں دوائی سالموں (ڈرگ مالیکیولز) سے بھرا جاسکے؛ اور اس کے بعد ان کی جھلی دوبارہ سے بند ہوجائے اور وہ دوسرے صحت مند خلیوں کی طرح بن جائیں۔

اس طرح کسی دوا سے ’’مسلح‘‘ خلیے نہ صرف اپنے مطلوبہ ہدف کو تلاش کرتے ہوئے، انسانی جسم میں اپنا سفر خود جاری رکھ سکیں گے بلکہ انہیں جسم کے قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) کی طرف سے بھی کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔

مذکورہ تحقیق کے دوران اس تصور کو تجربات کے دوران عملی طور پر ثابت کیا گیا ہے جسے طبّی میدان میں متعارف ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے