گنج ہائے گراں مایہ

بعض سیاستدانوں کی گفتگو سے آپ کو ان کے اخلاق، کردار اور ہنرمندی کا اندازہ ہو جاتا ہے، اس لیے آج آپ کی خدمت میں چند اعلیٰ کتب پر تبصرہ پیش کر رہا ہوں۔برادرم منیر احمد ملک صاحب نے ’’محبوبِ انس و جانﷺ‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم مجموعہ حضرت سرورِ جہاں حبیبِ خدا اور محبوبِ خلائقﷺ سے اپنی محبت اور وابستگی کے اظہار کیلئے مرتب فرمایا ہے۔ اس مجموعہ میں ہر وہ تحریر نثری اور منظوم کلام شامل ہے جو مصنف کو پسند آیا۔ اس میں حال کے لکھنے والے بھی شامل ہیں اور ماضی کے بھی، مسلمان بھی ہیں اور سرکار دو عالمﷺ سے عقیدت رکھنے والے غیر مسلم حضرات بھی۔ اس طرح منیر احمد ملک صاحب نے فخر دو جہاں کیلئے گلدستۂ عقیدت و محبت مرتب کیا ہے۔ اکثر مقامات پر تو انہوں نے نظم و نثر لکھنے والوں کی نشاندہی کی ہے البتہ کہیں کہیں کوئی مضمون ایسا بھی نقل کیا ہے جس کے مصنف کا نام لکھنے کے بجائے صرف ’’ماخوذ‘‘ لکھنے پر اکتفا کیا ہے۔ مناسب ہوتا اگر ہر جگہ اصل لکھنے والے کا نام درج کیا جاتا۔بہرحال یہ ضخیم گلدستۂ عقیدت مصنف کی جانب سے ایسی ہستی کے ساتھ محبت اور دلی تعلق کا اظہار ہے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کو جذباتی طور پر متحد کرتا ہے۔ اہل اسلام کے درمیان جو بھی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا سیاسی اختلاف ہو، سب کے سب اگر کسی نکتہ پر متفق ہو سکتے ہیں تو وہ ذاتِ رسالت مآبؐ کی مثالی شخصیت ہی ہے اور جہاں کوئی شخص اس مرکزِ عقیدت و محبت سے الگ ہوتا ہے تو وہ بولہبی کی راہ پر چل پڑتا ہے:

بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست

(2)دوسری اہم کتاب معترضینِ اقبال اور ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی، برادرام پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کا بہت محنت طلب، خوبصورت اور عقیدت آمیز مقالہ ہے! جو لائقِ تحسین ہے، میں انہیں اس کام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس نسخہ نے میرے علم میں اضافہ کیا ہے! معترضینِ اقبال دراصل وہ راندۂ درگاہ ہیں جنہیں ربِّ کریم نے اقبال شناسی کی توفیق ہی نہیں دی۔ اقبال شناسی ہر کسی کا نصیب ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ کرم کا فیصلہ ہے جو برادرم ریاض احمد کے حق میں سنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی کے اس مرقع میں برادرم ریاض احمد نے چھوٹے چھوٹے بیسیوں محاذ پر علّامہ محمد اقبالؒ کا دفاع کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے محاذ کی اصطلاح اسلئے استعمال کی ہے کہ اقبالؒ پر اعتراض کرنے والا بڑا آدمی ہو ہی نہیں سکتا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ برادرم ریاض احمد نے بڑی ثابت قدمی سے معترضینِ اقبالؒ کا مقابلہ کیا ہے۔ شاید اسلئے کہ ہم ایسے ہزاروں، لاکھوں اقبال شناس برادرم ریاض احمد کی پشت پر کھڑے ہیں۔

(3)تیسری اہم کتاب ماَثر الاجداد ہے۔ پروفیسر منظور الحق صدیقی صاحب ہماری تاریخ اور تحقیق کی دنیا کا محترم نام ہیں، وہ مستند تاریخ میں یکتا تھے، ان کی سوچ کی گہرائی اور فکر کی بلندی انہیں اپنے عہد کے اہلِ قلم میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ عام کو خاص اور ادنیٰ کو اعلیٰ کے درجے پر دیکھنے کے متمنی رہے۔ وہ انتہائی صاحبِ عزّت اور دیانت دار محقق تھے۔ زیرِ نظر ’’ماَاثر الاجداد‘‘ ان کی ایک ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے اس کتاب کی تاریخی اہمیت اور آج تک اس پہلو پر کچھ نہ لکھے جانے کا شدّت سے احساس ہوتا ہے۔

(4)چوتھی بہت معلوماتی ذرائع ابلاغ سے متعلق کتاب ’’ڈاکیومینٹری۔ تاریخ و ارتقا‘‘ ہے جس کے مصنف جناب ناظم الدین ہیں جو پی ٹی وی میں ڈائریکٹر؍ پروڈیوسر رہے ہیں۔ آپ نے میڈیا میں تقریباً 50سال گزارے ہیں اور اس کتاب میں اپنے تجربوں کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب کراچی سےشائع ہوئی ہے۔ پروفیسر ضیاء الرحمٰن صاحب نے اس کتاب پر بہت اچھا تبصرہ لکھا ہے جس سے میں متفق ہوں اور اس کو ہی پیش کر رہا ہوں:ناظم الدین صاحب ان چند افراد میں سے ہیں جنہوں نے ملک ہی نہیں، بیرونِ ملک بھی پاکستان کا مثبت تاثر ابھارنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ برادرم ناظم سے میری دوستی تقریباً ’’نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘‘۔ کوئز مقابلوں میں شرکت نے اس کیلئے تحقیق کے دریچے وَا کیے اور وہ اس روشنی کو سمیٹنے کیلئے بےچین ہوگیا۔ تاریخِ عمومی، تاریخِ اسلام اور صحافت میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر یاور مہدی اور محمد نقی نے ان سے تحقیقی پروگرام تحریر کرائے۔ جب اس کیلئے سارے میدان چھوٹے پڑ گئے تو پاکستان ٹیلی وژن جیسے بڑے ادارے کیلئے ایک نئی اُڑان بھری۔ یہاں مختلف نوعیت کے پروگرامز پروڈیوس کیے لیکن اسکی پہچان ٹی وی پروگرامنگ کی مشکل ترین صنف ڈاکیو منٹری بنی۔ ہم دونوں کیلئے عبیداللہ بیگ صاحب کے دستاویزی پروگرام اکیڈمی ثابت ہوئے۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ مجھے اس شعبے میں ناظم ہی لایا۔ اس کی تقریباً ایک سو ڈاکیو مینٹریز میں سوائے دو تین کے، تمام ہی کو مجھے لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ناظم کی بیس سے زیادہ ڈاکیو مینٹری کو بین الاقوامی اور ملکی ایوارڈز، اعزازات اور تعریفی اسناد سے نوازا گیا۔ NHKاور جاپان فائونڈیشن نے اسے ’’جاپان کے عوام اور ان کے طرزِ رہائش‘‘ پر ڈاکیو مینٹری بنانے کیلئے اپنے ملک میں مدعو کیا۔ یہ اردو زبان میں ڈاکیو مینٹری کی تاریخ اور اس کے ارتقا کے بارے میں پہلی کتاب ہے۔ ہمارے یہاں ماس میڈیا کے طلبہ کو ایسی کتاب کا عرصے سے انتظار تھا۔ یہ نہ صرف ماس میڈیا کے طلبہ کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے گی بلکہ ڈاکیو مینٹری سے شغف رکھنے والے افراد کیلئے بھی ’’نیشنل جیوگرافک میگزین‘‘ ثابت ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے