شہید اعظم محمد مقبول بٹ شہید جدوجہد آزادی کا استعارہ

”ہمارے لیے عہدے اور منصب منزل نہیں“(شہید اعظم محمد مقبول بٹ)

حق شناسی اور خداپرستی کا دعویٰ رکھنے والوں کے لیے بہترین زندگی وہ ہے
جو سچائی کا شعور حاصل کرنے اور اس شعور کی روشنی میں انفرادی واجتماعی
زندگی کی تزئین و آرائش میں صرف ہو اور بہترین موت وہ ہے جو ظلم وجہالت
سے انسانوں کو نجات دلانے والی جنگ میں پیش آئے،کیا آپ نہیں جانتے کہ
بسترِمرگ ایڑیاں رگڑ تے رگڑتے مرنے کے بجائے یہ بدرجہا بہتر ہے کہ انسان
سچائی کے منکرین سے برسرِپیکار ہوتے ہوئے اپنے مقاصد زندگی کے لیے تختہ
دار پر جان کا نذرانہ پیش کرے۔

جہاں فکر کا یہ انداز ہوتو وہاں نہ تو صلے کی طلب ہوتی ہے نہ ہی ستائش کی
تمنا،میرے لیے یہی کیاکم ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوستوں ،عزیزوں اور
ساتھیوں کا بے پایاں خلوص اور لازوال محبت نفسا نفسی کے اس عالم میں مجھے
حاصل ہے،اس امتیاز کے ہوتے ہوئے کس چیز کی تمنا کی جاسکتی ہے؟

یہ الفاظ بطل حریت عظیم رہبر شہید محمد مقبول بٹ نے 15اگست1981ءکو سینٹرل
جیل دہلی سے راجا مظفر خان کے نام لکھے صفحہ قرطاس پر ثبت کیے۔

 ریاست جموں وکشمیر کے عظیم سپوت کے جس نے آج سے36سال قبل آج ہی کے دن
اپنے لہو سے مادر وطن کے اپنے لگائے ہوئے شجر آزادی کو اپنے لہو سے
سینچا،یہ اس عظیم انقلابی اور اپنی قوم کا درد اپنے سینے میں موجزن رکھنے
والے شہید کشمیر محمد مقبول بٹ شہید کے تاریخی الفاظ تھے جو انھوں نے
سینٹرل جیل نئی دہلی سے 7اگست 1981کواپنے ایک دوست میاں غلام سرور کے نام
ایک خط کی تحریر میں ثبت کیے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

”میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر حق وباطل کی اس کبھی نہ
ختم ہونے والی جنگ میں سچائی کی علمبردار قوتوں کے ساتھ خود کو شناخت
کرتے ہیں انھیں نہ تو صلے کی طلب ہوتی ہے اور نہ ہی ستائش کی تمنا۔

ذاتی طور پہ وطن اور اہل وطن سے متعلق اپنی امنگوں کے لیے جدوجہد کے
دوران سچائی کے منکرین کے ہاتھوںbeating and burningکے مرحلوں میں سے گزر
چکا ہوں،اس دوران میرے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب ان
کے پاس hangingکا مرحلہ باقی رہ گیا ہے،جسے اب و آزمانا چاہتے ہیں،دعا
کیجئے کہ اللہ تعالی آزمائش کی اس گھڑی میں میرے عزم و ایمان کو قائم
رکھے اور مجھے صبر واستقامت سے نوازے تاکہ امتحان کے اس آخری مرحلے میں
میرے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے،جبر وغلامی اور ظلم وعداوان کی
علمبردار قوتوں سے معرکہ آراء ہونا انسانیت کا سب سے بڑا شرف ہے۔“

عظیم انقلابی بابائے قوم مقبول احمد بٹ 18فروری 1938کو کشمیر کے ایک
گاو ¿ں تریگام تحصیل ہند واڑہ ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوئے ، والد کا نام
غلام قادر بٹ تھا ، جو ایک محنت پیشہ آدمی تھے،مقبول بٹ شہید نے ابتدائی
تعلیم گاو ¿ں کے پرائمری سکول سے حاصل کی،بی اے سینٹ جوزف کالج بارہ مولہ
سے کیا،سکول اور کالج کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے کالج کے پرنسپل مسٹر
شنکش نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ نوجوان کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے گا۔

مقبول بٹ شہید بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1958ءمیں اپنے چچا
عبدالعزیز کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبور کرکے وادی آزادکشمیر میں داخل
ہوئے،سرحدی محافظوں نے پوچھ گچھ کرکے انھیں مظفر آباد قلعہ میں بند
کردیا،رہائی کے بعد مقبول بٹ شہید پشاور میں رہائش پذیر ہوئے،یہاں پشاور
یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا،تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ایک روزنامہ ”انجام
“سے بھی وابستہ ہوکر شعبہ صحافت میں قدم رکھا،شہید کشمیر نے اس وقت ایک
ہفتہ وار ”خیبر ویکلی“ رسالہ بھی شروع کیا،جو زیادہ دیر نہیں چل سکا،
پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور صحافت میں ڈگریاں حاصل کیں۔

یہ پاکستان میں بھی قید رہے بھارت کی جیلیں کاٹیں مگر آپ حق سے دستبردار
نہ ہوئے ،6 فروری1984ءکو لندن میں بھارتی سفارت خانے کے ایک اہلکار
ریوندر مہاترے کو ”کشمیر لبریشن آرمی“ کے خفیہ اہل کاروں نے
اغواءکرلیا،24گھنٹوں میں مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھیوں کو رہائی کا
مطالبہ کیا،بھارتی حکومت نے یہ مطالبہ نہ مانا ،54گھنٹے گزر
گئے،اغواءکاروں نے مہاترے کو قتل کردیا،جس کے بات بھارتی حکومت نے آزادی
کے عظیم سپوت محمد مقبول بٹ شہید کو پھانسی دینے کا اعلان کردیا،اپنے اس
عظیم قائدکو سزائے موت سے بچانے کے لیے کشمیریوں نے بہت کوششیں
کیں،چنانچہ11فروری1984ءکو علی الصباح کو آزادی مانگنے کے جرم میں بھارتی
سفاک حکومت نے مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر لٹکا دیا،پھانسی کے پھندے پر
لٹکتے ہوئے محمد مقبول بٹ شہید کے آخری الفاظ تھے،”میرے وطن تو ضرور آزاد
ہوگا“۔

مقبول بٹ شہید کی نعش بھارتی حکام نے حوالے کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ
تہاڑ جیل کے احاطے میں محمد مقبول بٹ شہید کو دفن کردیا،آج 36برس گزر
جانے کے باوجود بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے عظیم قائد کا تابوت کشمیریوں
کے حوالے نہ کیا۔

بقول فیض
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جانی کی کوئی بات نہیں
محمد مقبول بٹ شہید کوڈرایا گیا مگر آپ نے اپنی مادر وطن سے جو وعدہ کیا
تھا اس وعدے نبھانے کیلئے تختہ دارکو چوم لیا مگر اپنے وعدے پر ڈٹے رہے
،29مارچ1981ئ کوتہاڑ جیل سے ارشد محمود انصاری کے نام لکھتے ہوئے محمد
مقبول بٹ شہید کہتے ہیں”حق وباطل کی کشمکش میں حق کا ساتھ دینے والے الگ
اور منفرد مقام رکھتے ہیں،اس مفہوم کا بیان اس مختصر سے خط میں ممکن
نہیں،تاہم اتنا ضرور عرض کروں گا، کہ جس بازی کے لیے ہم زندگی داو ¿ پر
لگا چکے ہیں،اس کی نوعیت ایسی ہے کہ ہار کر بھی بازی میں مات
نہیں،درحقیقت اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ انسان کامل شعور کے ساتھ زندگی
کے مقاصد کی آبیاری کرتا رہے،اگر شعور اور مقاصد کے عناصر کوزندگی سے
خارج کیا جائے توایسی زندگی حقیقت میں موت کے مترادف ہوجاتی ہے،اور شعور
وعمل کی موت ہی دراصل موت ہوتی ہے۔“

یہ الفاظ شہیدکشمیرکی سوچ اور فکر کا آئینہ دار تھے،یہ کہتے ہیں کہ
پاکستانی ایجنٹ ہے ،وہ کہتے ہیں بھارتی ایجنٹ ہے، درحقیقت میں کشمیری قوم
کا ایجنٹ ہوں،میں کشمیر میں جبر،ظلم،غلامی استحصال،منافقت،دولت پسندی اور
فرسودگی کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں“۔

آج گیارہ فروی کا دن اس عظیم قربانی کا دن ہے گیارہ فروری 1984کو تہاڑ
جیل میں بہنے والالہو آزادی پسندی کے لبوں کا گیت‘ انقلابیوں کے خون کی
حرارت ‘دھرتی کشمیر کے رہنے والوں کے لیئے جیون سراغ ہے اک مستند اصول
‘غلامی سے نجات کی اک یاس و امید ،سامراج کیخلاف لڑنے کی اک شکتی ہے
‘سقراط منصورعیسیٰ کی طرح کے مقدس خیالات عمر مختار ‘بھگت سنگھ‘گویرا‘
نیلسن منڈیلا جیسی عظیم جدوجہد کرنے والا مقبول احمد بٹ شہید تاریخ کا
انمول اور کشمیریوں کے سرکا تاج ہے، آج 36برس گزر جانے کے باوجود کشمیری
قوم کا عظیم رہبر ورہنما آج بھی دلوں میں موجز ن ہے۔
دور باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے سر نہیں رہتے

آزادی کے اس سفر میں شہید کشمیر کو اعلی وارفع مقام حاصل ہے،محمد مقبول
بٹ شہید کی قربانی نے کشمیریوں کو نیا عزم اور حوصلہ دیا،اس عظیم سپوت نے
روایتی سیاست کے علمبرداروں کویہ کہتے ہوئے ٹھکرا یا کہ ”ہمارے لیے عہدے
اور منصب منزل نہیں ،ہماری منزل ریاست جموں وکشمیر کی مکمل آزادی اور خود
مختاری ہے،یہی وجہ ہے آج 36برس گزر جانے کے باوجود ہ شہید کشمیر کا نام
ریاست کے بچے بچے کے لبوں پر ہے،جو شہید کشمیر کے مشن کی تکمیل کے لیے
ایک راہ متعین کرتا ہے،محمد مقبول بٹ شہید کے بعد کئی کشمیری مادروطن کے
لیے قرباں ہوگئے،کامل ایماں ہے کہ وہ دن قریب آن پہنچا ہے جب ریاست شہید
کشمیر کے خواب مکمل آزادی و خود مختاری کے سانچے میں ڈھل جائے گی،افضل
گرو،برہان وانی،جنید احمد سمیت کئی آر پار سامراج کے ہاتھوں موت کی وادی
میں اترنے والوں کا لہو رائیگا نہیں جائے گا،جن کی مانگ صرف ایک ہی ہے کہ
آزادی آزادی اور بس آزادی۔

آج شہید اعظم کے پیروکار ایک ایسے وقت میں ان کی برسی منا رہے ہیں جب
بھارت نے 190روز سے کشمیریوں کو مقید کررکھا ہے،یاسین ملک سمیت حریت
قیادت تہاڑ جیل میں بند ہے،انٹرنیٹ ،موبائل سروسز سمیت دیگر سہولیات دنیا
کا واحد خطہ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر ہے جہاں بند ہیں،جو جمہوریت کے
جھوٹے اور نانہاد چیمپئن بھارت کے ماتھے پر کلنک ہے۔

بھارتی بربریت کے باوجود شہید کشمیر محمد مقبول بٹ آ ج بھی آزادی کے
متوالوں کی سوچوں اور فکروں میں زندہ ہ،تابندہ، پائندہ اور ہیں ‘آپ کا
پیغام کشمیر کے تمام حصوں کے نوجوانوں کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہا
ہے،آج ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری
اپنے عظیم قائد محمد مقبول بٹ شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آج36ویں
برسی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہوئے اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ
ریاست کی مکمل آزادی اور شہید کشمیر کے مشن کی تکمیل تک جدوجہد جاری
رکھیں گے،ان کے تختہ دار پرکہے الفاظ کی” میرے وطن تو ضرور آزاد ہوگا“ کی
پاسداری کرتے ہوئے تحریک کو انجام پہنچائیں گے۔

اس موقع پر جملہ کشمیریوں کا اقوام عالم اور اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ
بھی ہے کہ جنوبی ایشیاء کے امن کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے فی الفور ریفرنڈم کا انعقاد کرایا جائے
تاکہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرسکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے