سوشل میڈیا کمپنیاں 24 گھنٹے میں ممنوعہ مواد ہٹانے کی پابند ہوں گی: فردوس عاشق

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نمائندہ یا فوکل پرسن نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کمپنیاں قومی سلامتی سے جڑے چیلنجز سے کھیلتی تھیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کا کہناتھا کہ قومی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پہلے کسی مواد کو ہٹانے کے لیے حکومت کو سوشل میڈیا کمپنیوں کی منتیں کرنا پڑتی تھیں اب وہ 24 گھنٹے میں مواد ہٹانے کی پابند ہوں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام مہذب معاشروں میں نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز حکومت کی جانب سے انتہائی خاموشی سے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے گئے ہیں اور وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قوانین کی منظوری بھی دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قواعد میں ترمیم کردی ہے جسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ضرورت بھی نہیں۔

نئے قوانین کے مطابق تمام عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی 3 ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے ۔

[pullquote]سوشل میڈیا کمپنیوں کیلئے پاکستان میں اپنا دفتر قائم کرنا لازمی قرار [/pullquote]

نئے قواعد کی رو سے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے 3 ماہ میں اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ ان پر پاکستان میں رابطہ افسر تعینات کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔

نئے قوانین کے تحت یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پربنائے جانےوالے مقامی پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دی گئی ہے اور تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بنانے ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو ہراسانی، اداروں کو نشانہ بنانے اور ممنوعہ مواد کی شکایت پر اکاؤنٹ بند کر سکے گی اور قواعد پر عمل نہ کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیوں پر 50 کروڑ روپے تک جرمانہ بھی ہوگا۔

ان اقدامات سے قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے