داعشی اور طالبانی نظریات کے اسلامی جواز کیسے بنتے ہیں ؟

بہت آئیں بائیں شائیں ہو چکا۔ آج کچھ بات سیدھی سیدھی ہوجائے۔ جس کو دنیا دہشت گردی کہتی ہے، جسے اہل احتیاط عسکریت پسندی کہتے ہیں اور جسے اہل مدارس جہاد کہتے ہیں، اس کا علمی ، اخلاقی اور اسلامی جواز کیسے پیدا کر لیا جاتا ہے۔ کس طرح وہ دین جس کو دینِ امن کہتے ہیں اور جس کےنبی کو نبی رحمت ﷺ کہتے ہیں ،اس دین کے طلبا، ‘طالبان ‘کیسے بن جاتے ہیں، یہ بےگناہ غیر مسلموں کو قتل کرنا کیون جائز سمجھتے ہیں ، یہ انسانیت کے نا م پر ہی سہی ان سے ہمدردی کیوں نہں جتاتے، بلکہ جو جتاتے ہیں ان پر بھی لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ اپنے مسلمانوں کو بھی قتل کرنے سے کیوں نہیں جھجھکتے۔ یہ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے معصوموں کے قتل پر بھی قرآن و حدیث سے دلائل کیسے لے آتے ہیں۔ یہ کس طرح اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کرکے جشن منا لیتے ہیں، یہ کیسے دوسرے مسلک والوں کو بم سے اڑا کر تسکین پاتے ہیں۔ یہ کس طرح اس سب قتل وغارت کے لیئے اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اور اس پر خدا سے اجر کی امید کیسے کرتے ہیں ۔

مدراس میں کیا سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے میں آج صاف صاف بتاتا ہوں۔ تاکہ معلوم ہو کہ اس امت کے اربوں روپے ، اسلام کے جن قلعوں پر لگ رہے ہیں وہ آپ کے لیے کیا سوغات تیار کرتے ہیں۔

یہ آئیڈیلوجی یہ ہے:

غلبہ دین ، یعنی دین کا سیاسی غلبہ اس امت پر فرض ہے۔ مولانا تقی عثمانی ‘ان الحکم الا للہ ‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ جس خدا کا حکم آسمانوں میں قائم ہے اس حکم زمین پر بھی قائم ہونا لازم ہے۔ مولانا زاہد الراشدی فرماتے ہیں:”مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ "خلافت اسلامیہ” کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے۔” اس نظریے کو مولانا مودوی کے نظریہ عبادت و اطاعت نے منطقی دلائل مہیا کردئیے۔ انہوں نے اسلام کو ایک نظام بتایا اور دوسرے نظاموں کی اطاعت کو کفر کی اطاعت قرار دیا۔چنانچہ اب اگر ایک مسلم حکومت اسلامی نظام نافذ نہیں کرتی تو وہ قرآن کی رو سے کافر ہے:

جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں دیتے تو وہ کافر ہیں

اگر مسلمان ایسا کریں تو گویا وہ تو مرتد ہیں اور مرتد کی سزا موت ہے۔ ان کے خلاف لڑنا جائز ہے ۔ اب جو عام لوگ وو ٹ ، ٹیکس وغیرہ کے ذریعے اس نظامِ کفر کو سپورٹ کرتے ہیں ، وہ بھی نظامِ کفر کے مددگار ہیں ، چنانچہ یا تو وہ بھی کافر ہیں یا خدا کے باغی ہیں ان کا قتل بھی برا نہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں آپ کا قتل جائز ہے یا کم از کم قابلِ افسوس نہیں!

مسلمانوں کی حکومت اگر ہے تو اس پر فرض ہے کہ اپنے دائرہ حکومت میں اسلام کے قانون کا نفاذ کرے اور اس کے بعد ساری دنیا پر اس کو بزور قوت نافذ کردے۔ غیر مسلم حکومتوں کو آپشن دیا جائے گا کہ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں، یا مسلمانوں کے سیاسی اقتدار میں ماتحت بن کر رہیں، اور یہ بھی نہیں مانتے تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی ۔ انہیں محکوم بنایا جائے گا۔

اگر حکومت میسر نہ ہو تو مسلمان خود اپنے طور جتھا بندی کر کے جہاد شروع کریں گے۔ اور اس راہ میں اگر مسلمان حکومتیں رکاوٹ بنتی ہیں تو ان سے بھی لڑیں گے۔اب قرآن اور حدیث سے ان کے دلائل ملاحظہ فرمائیے:
رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا
قرآن کا فرمان ہے :
اس خدا نے رسول بھیجا کہ باقی تمام ادیان پر غالب ہو جائے،

دوسرے مقام پر ہے

ان سے لڑتے رہو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے۔

اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک ان کفار سے لڑوں جب تک وہ لا الہ کا اقرار نہ کرلیں۔ (بخاری)

ویسے تو ہماری ساری فقہ ہی ان نظریات پر قائم ہے لیکن نمونے کے طور پر شاہ ولی اللہ کے بیانات نقل کرنا کافی ہوگا، جن کی علمی سیادت پر سب کو اتفاق ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
1۔ معلوم ہونا چاہیے کہ نبی ﷺ کو خلافتِ عامہ کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اور دین کا غلبہ دیگر تمام ادیان پر جہاد اور اس کے آلات و وسائل کی تیاری کے بغیر ممکن نہیں ۔ تو جب لوگ جہاد چھوڑ دیں گے، اپنے مال مویشیوں میں لگ جائیں گے، تو ذلت ان کو گھیر لے گی، اور دیگر ادیان والے ان پر غالب آ جائیں گے۔

2۔ مسلمانوں کے حکمران پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے غلبےاور کفار کے ہاتھوں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے اسباب کے حصول کی فکر کرے اور اس سلسلے میں خوب محنت اور غوروفکر کرے اور پھر اپنے نتائجِ فکر پر عمل کرے۔

3۔ مسلمانوں کا حکمران اہلِ کتاب اور مجوس سے لڑتا رہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔

4۔ اور تیسرے حال( کہ اہلِ کتاب سے ذلت کے ساتھ جزیہ وصول کیا جائے) سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ کفار کی شان و شوکت کا زوال ہوتا ہے اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور نبی ﷺ انہیں مصالح کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔
شاہ صاحب،مسلم حکمران کے لیے لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ غیر مسلم قوتوں کے خلاف ہر حال میں جنگ کرے ۔ اور صلح صر ف اس صورت میں کرے جب مسلمان کمزور ہوں یا صلح کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کی جائے:

5۔ مسلم حکمران ،غیر مسلم حکومتو ں سے مال کے ساتھ یا بغیر مال کے صلح کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلمان کفار سےلڑنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے انہیں صلح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا کبھی وہ انہیں مال کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ قوت حاصل کر سکیں، یا صلح کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ ایک قوم کے شر سے محفوظ ہو کر دوسری قوم سے جہاد کر سکیں۔

پرائیویٹ جہاد کے لیے عملی نمونے حضرت حسین رض سے لے سید احمد شہید تک کی تمام تحریکوں سے فراہم کیے جاتے ہی، کہ یہ لوگ چند افراد کے ساتھ خدا کے نظام کو قائم کرنے چل پڑے تھے اور اپنی جانیں دے دی تھیں تو ہمیں بھی چاہیئے کہ اسی اسوہ پر چلیں۔اب اگر ایسی حکومت میسر نہ ہو تو نجی طور افراد ان فرائض کو انجام دینے نکل پڑیں۔ چنانچہ سید احمد شہید لکھتے ہیں:

1۔ "جو حکومت اور سیاست کے مردِ میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبورًا چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے

2۔ حقیقت کے مطابق مقولہ:سلطنت و مذہب جڑواں ہیں”، اگرچہ یہ قول حجتِ شرعی نہیں لیکن مدعا کے موافق ہے کہ دین کا قیام سلطنت سے ہے

3۔ "اس فقیر کو مال و دولت اور حصولِ سلطنت و حکومت سے کچھ غرض نہیں، دینی بھائیوں میں سے جو شخص بھی کفار کے ہاتھوں سے ملک آزاد کرے، رب العالمین کے احکام کو رواج دینے اور سید المرسلین کی سنت کو پھیلانے کی کوشش کرے گا اور ریاست و عدالت میں قوانینِ شریعت کی رعایت و پابندی کرے گا، فقیر کا مقصود حاصل ہو جائے گا اور میری کوشش کامیاب ہو جائے گی۔

4۔ اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستا ن کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر وشرک سے پاک کیا جائے

5۔ "اس قدر آرزو رکھتا ہوں کہ اکثر افرادِ انسانی، بلکہ تمام ممالکِ عالم میں رب العالمین کے احکام، جن کا نام شرع متین ہے، بلا کسی کی مخالفت کے جاری ہو جائیں۔”

یہ سید صاحب کے عالمی ایجنڈے کا اظہار ہے۔ یعنی ساری دنیا پر اسلام کا سیاسی غلبہ آپ کے پیشِ نظر تھا۔

دوسرے طرف، غیرمسلم ممالک دارالحرب ہیں۔ جہان اسلام کی حکومت نہ ہو وہ دارالحرب ہوتا ہے۔ چنانچہ دارالحرب میں رہنے والے بھی اپنی کفار کی حکومتوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ان کے لیڈر مسلمانون پر حملے کرتے ہیں اور ان ‘مجاہدوں’ کو مارتے ہیں جو خلافت قائم کرکے ان کو محکوم بنا سکتے ہیں ، اس لیے غیر مسلم فوجیوں کے علاوہ ان کے عوام کو بھی قتل کرنا جائز ہے جو ان کی مضبوطی کی وجہ ہیں۔ قرآن کہتا ہے:

اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔

اب بتائے کیا خیال ہے کب داعش کو جائن کر رہے ہیں؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے