صحافی فصیح الرحمان قتل نہیں ہوئے !!!

ایک اور صحافی ہارٹ اٹیک سے دنیا چھوڑ گیا لیکن مبارک ہو، میڈیا سیٹھوں کو کہ اس صحافی فصیح الرحمان کی اچانک موت کا الزام ان پر نہیں آئے گا کیونکہ اس بیروز گار صحافی کی تنخواہ کسی بھی ادارے میں موخر نہیں ۔ مبارک ہو میڈیا کی مسلسل جدوجہد سے بننے والی تبدیلی والی حکومت کو جس کے دور میں ہر صحافی اور میڈیا کارکن روزانہ اپنی لاش اپنے کندھے پر اٹھائے گھر سے باہر نکلتا ہے ۔ صحافی اور میڈیا کارکن یکے بعد دیگرے جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔

47 سالہ فصیح الرحمان ایک انتہائی نفیس خوش اخلاق ، سنجیدہ اور خوددار طبیعت کے حامل قابل صحافی تھے ۔ وہ زیادہ تر جنگ گروپ سے وابستہ رہے ۔ وہ جیونیوز کی بانی ٹیم کا حصہ تھے ، وہ دنیا اور ایکسپریس ٹی وی کے بیورو چیف رہے ، وہ آپ نیوز کی بانی ٹیم میں شامل تھے لیکن آفتاب اقبال نے انہیں ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔ وہ دیگر بہت سے صحافیوں کی طرح سات ماہ سے بیروزگارتھے بیروزگاری کے دوران انہیں گھر کا خرچ چلانے اور گزر بسر کے لیے اپنی خاندانی جائیدادیں بھی فروخت کرنا پڑی ۔ فصیح الرحمان تمام تر پریشانیوں کے باوجود حالات کی بہتری کے حوالے سے پر امید تھے ۔ انہوں نے دو ماہ پہلے زندگی سے متعلق ایک پوسٹ کی تھی کہ “ آپ ہر چیز پر قابونہیں پا سکتے ۔بعض اوقات آپ کو آرام کرنے اور یہ یقین رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ حالات میں بہتری ضرور آئےگی ۔آگے بڑھو اور زندگی گزرنے دو “

فصیح الرحمان خان سینتالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔

فصیح الرحمان کے قریبی دوستوں کے مطابق وہ ایک طرف اپنی بہن کے انتقال پر بہت زیادہ صدمے سے دوچار تھے اور دوسری طرف مسلسل بیروزگاری کی اذیت میں مبتلا تھے ۔ وہ کئی ماہ سے ملازمت کے حصول کی کوششوں میں مصروف تھے ، کہیں سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کے باوجود وہ کبھی ناامید نظر نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی دوست کے سامنے ہاتھ پھیلایا بلکہ اپنی دو جائیدادوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے گزر بسر کر رہے تھے ۔ آج صبح نماز فجر کے وقت فصیح الرحمان کے انتقال کی خبر ملی تو یقین ہی نہ آیا ۔

فصیح الرحمان کے موبائل نمبر پر کال کی تو ان کے صاحبزادے عبداللہ نے فون اٹینڈ کیا اور بتایا کہ انکل اب پاپا دنیا میں نہیں رہے ۔ انہیں رات دوبجے اچانک طبیعت خراب ہونے پر معروف ہسپتال لے جایا گیا ، ڈاکٹروں کے مطابق انہیں پہلے ہارٹ اٹیک اور پھر برین ہیمرج ہوا جس کے باعث وہ انتقال کرگئے ۔ عبداللہ سے بات کرتے ہوئے مجھے صدمے سے اپنا سانس بھی سینے میں رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔ فون بند کرنے کے بعد میں بہت دیر سوچتا رہے کہ فصیح الرحمان کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟ میڈیا مالکان ، حکومت یا آپس میں دست و گریبان صحافتی تنظیمیں ۔ اس ذہنی کشمکش میں مجھے بےساختہ کلیم عاجز کی یہ غزل یاد آئی
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو

یہ سب عاجز کی طرح مجھے اور میرے ساتھیوں کو بھی دیوانہ سمجھتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کے معاشی قتل اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے سانحات کے خلاف مسلسل جو بات کررہے ہیں وہ بک بک ہے اور ہم تھک ہار کر چپ ہوجائیں گے ، یہی وجہ ہے کہ کچھ سننے اور ماننے کو تیار نہیں ، لیکن ہم چپ نہیں ہوں گے ۔

چند ماہ پہلے کراچی میں نیوز ون کے سینئر صحافی ایس ایم عرفان ، تنخواہیں نہ ملنے کے باعث پیدا ہونے والے معاشی دبائو کے نتیجہ میں ہارٹ اٹیک سے فوت ہوئے تو سب نے ان کی موت کو طبی جانا اور گردانا ۔ اور پھر اسلام آباد میں کیپیٹل ٹی وی کے کیمرہ مین فیاض علی سات ماہ کی تنخواہ نہ ملنے سے لاحق گھریلو پریشانیوں کے باعث ہارٹ اٹیک سے موت کے منہ میں چلے گئے، صحافی سراپا احتجاج ہوئے ، پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے فیصلہ پر صحافیوں نے سینیٹ کی پریس گیلری سے واک آئوٹ کیا، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رولنگ دی اور بیشتر صحافتی اداروں میں کئی کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کے سپرد کیا ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی آراے نے میڈیا مالکان اور وزارت اطلاعات کے ارباب اختیار کی موجودگی میں قائمہ کمیٹی کی توجہ میڈیا بحران، صحافیوں کی برطرفیوں ، تنخواہوں میں کٹوتیوں اور کئی کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے جنم لینے والے المیہ کی طرف دلائی ۔ میں نے بطور صدر پی آراے ، کمیٹی کو خبردار کیا کہ بہت سے فیاض ، قطار میں کھڑے ہیں ، حکومت اور میڈیا مالکان ، میڈیا کارکنوں کو موت کے منہ میں نہ دھکیلیں ۔ پی آراے کے سیکرٹری جنرل ایم بی سومرو نے کمیٹی کو ان نادہندہ صحافتی اداروں کی فہرست پیش کی جنہوں نے دو ماہ سے گیارہ ماہ تک کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کئ ۔ پی آراے نے اپنے تحریری مطالبات پیش کرتے ہوئے بنیادی مطالبہ کیا کہ نادہندہ صحافتی ادارے غیرمشروط طور پر فورئ 2 ماہ کی تنخواہ ادا کریں ۔

۔جس کے بعد حکومت صحافتی اداروں کے اربوں روپے کے بقایاجات اس طریقہ کار کے تحت ادا کرے کہ ساتھ ہی میڈیا کارکنان کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہو۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات نے میڈیا مالکان کو دو تبخواہوں کی فوری ادائیگی کی ہدایت کی اور اپنی سفارشات سینیٹ میں پیش کیں ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی ذیلی کمیٹی نے بھی میڈیا کار کنوں کی تنخواہوں کے معاملے پر اجلاس کیا جس میں ہم نے اپنا موقف دہرایا ۔ اس کمیٹی نے بھی میڈیا کارکنوں کی تبخواہوں کی ہدایت کی ۔ دونوں قائمہ کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل نہ ہوا۔ پی آراے کا خدشہ درست ثابت ہوا اور سٹی 42کا نوجوان کیمرہ مین رضوان ملک جس کی ڈیڑھ ماہ قبل شادی ہوئی تھی ، تین ماہ سے تنخواہ نہ ملنے سے پیدا شدہ معاشی دبائو کے باعث ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگیا۔

پی آراے نے دوبارہ احتجاج کیا اور سینیٹ کی پریس گیلری سے دوبارہ واک آئوٹ کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نےدوبارہ اجلاس منعقد کیا اور میڈیا اداروں کے ملازمین کو 2 ہفتے میں 2 ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 25 فروری تک دو تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا ادارے توہین پارلیمنٹ کے منتخب قرار پائیں گے ۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت اطلاعات اور پیمرا کو 2 ہفتوں میں 2 تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ صحافتی تنظیمیں ان اداروں کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرائے جن کے کارکن تنخواہ نہ ملنے پر جان سے گئے ہیں جس پر میں نے موقف اختیار کیا کہ اگر آئندہ کسی صحافتی ادارے کی جانب سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کسی میڈیا کارکن کی جان جاتی ہے تو صرف اس میڈیا مالک ہی نہیں حکومت کے خلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہئے کیونکہ وہ بھی صحافیوں کو درپیش صورتحال کی ذمہ دار ہے ۔ مجھ ناقص العقل کو تو سمجھ نہیں آسکی کہ بیروزگار ، فصیح الرحمان قاتل کون ہے اور اس کا مقدمہ کس پر درج ہونا چاہیے ، لہذا میں یہ فیصلہ صحافی برادری پر چھوڑتے ہوئے ایک بار پھر حکومت اور میڈیا مالکان کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ صحافیوں کو ان کی تمام تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے ۔ 25 فروری کی ڈیڈلائن سے پہلے تمام نادہندہ ادارے کم ازکم 2 ماہ کی تنخواہیں ادا کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ روزانہ اپنی لاش اپنے کندھے پر اٹھائے گھر سے باہر نکلنے والا کوئی اور صحافی جان کی بازی ہار جائے ۔ اب ایسا ہوا تو ہمیں واک آئوٹ سے بڑھ کر کچھ سوچنا پڑے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے