پہاڑی زبان

زبان کسی بھی قوم کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ نہ صرف جذبات وخیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ شناخت کا ذریعہ بھی ہے۔

ہر ملک یا خطے کی ایک زبان ہوتی ہے جس سے اس خطے کے افراد کی نشان دہی ہوتی ہے۔ خطہ جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پہاڑی ہے جو مختلف لہجوں کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اس زبان کی اصل تاریخ پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی تاہم ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر نے پہاڑی زبان کے ارتقا کو وسط ایشیا اور ہندوستان سے جوڑا ہے۔

پہاڑی زبان کو تین بڑی شاخوں مشرقی پہاڑی، وسطی پہاڑی اور مغربی پہاڑی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مشرقی پہاڑی نیپال میں بولی جاتی ہے، مقامی سطح پر اسے ’’خشورہ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ زبان نیپال میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نیپال کی 44 فی صد آبادی (ایک کروڑ سے زائد ) خشورہ زبان بولنے والی ہے۔ یہ زبان بھی گر مکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور اس زبان میں ادب کو فروغ حاصل ہے۔
وسطی پہاڑی ہندوستان کے علاقے گڑھوال ڈویژن (اُترکھنڈ) میں بولی جاتی ہے، وہاں اِس کو گڑ والی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ زبان بولنے والوں کی تعداد تقریباً23 لاکھ ہے۔ اگرچہ اس زبان کو بھی گرمکھی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے اور ادب بھی موجود ہے لیکن اس زبان کے معدومی کے امکانات موجود ہیں کیوںکہ جن علاقوں میں بولی جاتی ہے اب وہاں ہندی اور انگریزی کا رجحان زیادہ ہو رہا ہے۔

مغربی پہاڑی کو سرحدی لکیروں سے ماورا ہو کر دیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر سمیت ہندوستان کی ریاست ہماچل پردیش اور پاکستان کے علاقوں مری، پنڈی کہوٹہ اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں لہجے کے تھوڑے فرق کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ پہاڑی زبان کی یہ قسم سب سے زیادہ بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ صحافی مہتاب عزیز کے مطابق ’’اشوک اور راجہ پورس کے درباروں کی زبان بھی پہاڑی تھی، اِس کے علاوہ کشمیر پر جن بادشاہوں نے حکم رانی کی ان میں سے سلطان مظفر خان، ہیبت خان، محمود خان، حسین خان، زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان بھی پہاڑی رہی ہے جبکہ کشمیر کے ڈوگرہ حکم رانوں کی مادری زبان بھی پہاڑی ہی تھی۔‘‘

تقسیم برصغیر کے باعث اس زبان میں ادب زیادہ ترقی نہ کر سکا جس کی بڑی وجہ رسم الخط پر اتفاق رائے نہ ہونا تھا۔ اسّی کی دہائی سے قبل یہ صرف ’’بولی‘‘ کے طور پر جانی جاتی تھی ۔ 1978 میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز نے شعبہ پہاڑی ادب و ثقافت کی بنیاد رکھی اور اس کے اقدامات کے بعد اسے ’’بولی ‘‘ سے مستند زبان کی طرف لے جانے کے اقدامات ہوئے۔

٭ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زبان: اگر ریاست جموں و کشمیر کی حد تک پہاڑی زبان کی بات کی جائے تو اس وقت ریاست کے دونوں اطراف بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے۔ جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز کے شعبہ پہاڑی کی بنیاد رکھنے والے میاں کریم اللہ قریشی کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں پہاڑی زبان بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقوں کٹھوعہ، جموں، ادہم پورہ، وادی چناب، ڈوڈہ، بھدروا، کشتواڑ، راجوری، بارہمولا، لری ڈورہ، چک فیروزپور، چک تمریرن، سرینگر کے علاقوں ولی واڑ، واوہ، ناگن بل، پلوامہ کے علاقوں کربوہ، مانلوزورہ، چک سید پورہ اور اننت ناگ کے کئی حصوں میں بولی جاتی ہے جب کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے تقریباً تمام علاقوں مظفرآباد، پونچھ اورمیرپور میں کثرت کے ساتھ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

زبان و ادب کے حوالے سے کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے کام کیا جائے تو یہ زبان ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف رابطوں کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔ پہاڑی زبان جہاں بول چال کا ایک اہم ذریعہ ہے وہاں بھرپور تخلیقی زبان بھی ہے۔ تخلیقی نوعیت کے باعث اس میں لوک ادب کا ذخیرہ کافی معیاری مقدار میں موجود ہے۔ پہاڑی زبان کے دامن میں لوک گیت، لوک کہانیاں اور اقوال (اخان)، پہیلیاں اور لوک داستانیں موجود ہیں اور یہ ادب زیادہ تر انفرادی کاوشوں کی وجہ سے محفوظ ہوا۔

٭تقسیم کشمیر کے پہاڑی زبان پر اثرات: تقسیم کشمیر کا سب سے زیادہ خمیازہ جموں اور پونچھ کو بھگتنا پڑا۔ جہاں علاقے تقسیم ہوئے وہیں اس خطے کی ثقافت اور ادب بھی تقسیم ہو کر رہ گئے۔ تین دہائیاں قبل تک پہاڑی زبان ’’بولی‘‘ کی حد تک محدود تھی اس میں ادب موجود نہیں تھا اور نہ ہے کوئی اشاعت تھیں ۔ میاں کریم اللہ قریشی کے مطابق 1978 میں جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز نے شعبہ پہاڑی ادب و ثقافت کی بنیاد رکھی اور اردو تصنیف ’’ہمارا ادب‘‘ کا پہاڑی ترجمہ کیا گیا۔ یہ پہاڑی زبان کی پہلی مستند اشاعت تھی۔ پہاڑی زبان پر کام کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر صغیر خان کے مطابق ’’تقسیم ہر چیز پر اثرانداز ہوئی اور اس تقسیم سے پہاڑی زبان اور ثقافت احساس کمتری کا شکار ہوئے۔ ایک عرصہ سے پہاڑی زبان کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ اس میں کچھ لکھا جائے۔‘‘ اس اعتبار سے آج اس زبان کو توجہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ احساس کمتری ختم ہوسکے اور پہاڑی زبان کو بہتر انداز میں سمجھا ، لکھا اور پڑھا جاسکے۔

٭زبان کو فروغ کیسے دیا جائے؟: ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا فطری اصول سمجھاگیا ہے۔ غیرمادری، اجنبی اور غیرملکی زبان کے ذریعہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو غیرفطری اور غیرضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس زمین پر ہزاروں قومیں آباد ہیں۔ ایک قوم کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی ہے جس نے غیرمادری زبان میں تعلیم کے ذریعہ ترقی اور عروج کی منزلیں طے کی ہوں۔ لیکن ہم نے احساس محرومی کے وجہ سے نہ صرف تعلیم غیرمادری زبان میں حاصل کی بلکہ عوامی جگہوں پر اپنی زبان بولنے سے بھی کتراتے رہتے ہیں۔ تقسیم کی وجہ سے ایک عرصہ تک پہاڑی زبان ’’بولی‘‘ تک ہی محدود رہی تاہم دو تین دہائیوں سے اس کی تجدید نو ہورہی ہے ۔ ایسے میں بھی تقسیم کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو سکی تاہم دوسری طرف ابھی تک سرکاری سرپرست سے محروم ہے۔

پہاڑی زبان اور ادب کے فروغ کے لیے ہندوستان زیر انتظام کشمیر میں سرکاری اور نجی سطح پر کافی کام کیا گیا ہے اور سب سے زیادہ کام جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز کے شعبہ پہاڑی ادب و ثقافت نے کیا ہے تاہم پاکستان زیرانتظام کشمیر کے 96فیصد حصے پر بولی جانے والی اس زبان کو سرکاری سرپرستی نہ مل سکی۔ اگرچہ انفرادی سطح پر کچھ کوششیںکی جارہی ہیں، لیکن سرکاری سطح پر اِسے بہت بُری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر صغیر کا کہنا ہے کہ ’’آج نئی نسل کو دوسری زبانوں میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ پہاڑی بولنے والوں کو بدتہذیب تصور کرتے ہیں۔ آج بھی پہاڑی پر کام کرنے والے دوسری زبانوں (اردو اور انگریزی ) میں اس پر لکھتے اور مقالہ پڑھتے ہیں۔ حالاںکہ ہندوستان زیرانتظام کشمیر میں قرآن مجید کا ترجمہ اس زبان میں ہوچکا ہے اور اس میں شاعری کی تمام اصناف موجود ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ زبان آج بھی الفاظ کا بڑا مجموعہ رکھتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر صغیر کا مزید کہنا ہے کہ یورپ میں دس لاکھ سے زائد افراد اس زبان کے بولنے والے ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا اصول ہے کہ جس زبان کے بولنے والوں کی تعداد اڑھائی لاکھ ہو تو اسے رجسٹرڈ کرلیا جاتا ہے اور اس پر مقالہ جات (Thesis) لکھنے کے لیے یونیورسٹی سہولتیں میسر کرنے کی پابند ہے۔ اس کے لیے ہمیں انفرادی حیثیت سے آغاز کرنا چاہیے اور بہترین آغاز یہ ہو گا کہ اپنے گھروں میں اور بچوں سے ماں بولی میں بات چیت کریں۔‘‘

میاں کریم اللہ قریشی کہتے ہیں: ’’جب تک ہم اپنی زبان بولنے میں جھجک کا مظاہرہ کریں گے اور احساس کمتری کا شکار رہیں گے تب تک اس کی ترویج ممکن نہیں۔ اس کے فروغ کے لیے ہمیں اسے نصاب کا حصہ بنانا ہو گا اور عوامی دفاتر میں پہاڑی بولنے کا رجحان پیدا کرنا ہو گا، عوام سیاست دانوں سے مطالبہ کریں کہ ان کو ووٹ اسی وقت دیا جائے گا جب وہ ان کی مادری زبان میں مخاطب ہوں گے۔ ان کے مطابق ہم آج بھی باہمی رابطوں کیلئے اردو بولتے ہیں لیکن دیگر قومیتوں کو دیکھیں تو وہ اپنی ماں بولی میں بات کرتے ہیں ۔ جموں وکشمیر کی ہی بات کریں تو وادی کے دفاتر میں بھی کشمیری بولی جاتی ہے اور گجر اکثریتی علاقوں میں عوامی جگہوں پر گوجری ہی بولی جاتی ہے لیکن پہاڑی بولنے والے پہاڑی بولنے میں جھجک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اگر ہمیں اپنی پہچان بنانی ہے تو ہمیں اپنی زبان کو زندہ رکھنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو زبان اگر نصاب کا حصہ ہوسکتی ہیں تو پہاڑی زبان بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اسے نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ میاں کریم اللہ قریشی نے بتایا کہ ’’ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں کلچرل اکیڈمی کی جانب سے ہر علاقے کے ثقافتی وفد (Cultural Troops) دوسرے علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں اور وہاں پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ زبان کے لہجے اور ثقافت سے دوسرے علاقوں والے روشناس ہوسکیں اور لہجوں اور تلفظ کو سمجھا جاسکے۔ آزاد حکومت کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہییں تاکہ پونچھ، میرپور اور مظفرآباد میں زبان کے لہجوں اور ثقافت میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تمام علاقے ایک دوسرے کی ثقافت سے روشناس ہو سکیں۔‘‘

پہاڑی زبان اور ثقافت کے لیے کام کرنے والی پونچھ کی رہائشی رومی شرما کا کہنا ہے کہ ’’زبان کے فروغ کے لیے حکومتی اقدامات سے زیادہ انفرادی اور سماجی کردار ضروری ہے۔ جب معاشرہ حکومت کو مجبور کرے گا تو وہ اس کے فروغ کے لیے کام کرے گی۔ اس کے لیے ریڈیو اور ٹی وی پروگرام ہونے چاہییں تاکہ گھروں میں موجود خواتین جو کام کرتے وقت ریڈیو سنتی ہیں ان میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکے۔‘‘ رومی شرما کے مطابق ’’پہاڑی زبان کو رواں سال سے جموں میں پہلی سے پانچویں جماعت تک نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس سے بچہ بنیادی تعلیم اپنی زبان میں حاصل کرے گا۔ اس کے لیے نصاب کی اشاعت ہوچکی ہے۔‘‘

انسان کی سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ بچہ اپنی ماں سے گود میں جو بھی باتیں سیکھتا ہے وہ عمر بھر اس کے ذہن میں پختہ رہتی ہیں اور اس کے اثرات بچے کے ذہن پر نقش ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں۔ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ حالات، پس منظر تہذیب اور ثقافت اور ان کی روایات پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔ مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندازہ لگانے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمیں اگر پہچان کو برقرار رکھنا ہے تو ہماری ماؤں کو اپنے بچوں سے پہاڑی زبان میں بات کرنی ہو گی تاکہ وہ اس سے روشناس ہو سکیں اور احساس کمتری سے باہر آسکیں۔

٭رسم الخط: جہاں تک رسم الخط کا تعلق ہے تو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں پہاڑی زبان کے رسم الخط بھی مختلف رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد مغربی پہاڑی کا رسم الخط مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا۔ ہماچل پردیش میں دیونا گری رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے زیریں علاقوں کے سِکھ اِس کو گرومکھی رسم الخط جب کہ جموں، پیر پنجال اور پاکستان میں رہنے والے مسلمان اسے فارسی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں سرکاری سطح پہاڑی زبان کے حوالے سے کام کی ابتدا کرنے والے میاں کریم اللہ قریشی بتاتے ہیں:’’ریاست جموں و کشمیر میں فارسی رسم الخط کو سمجھنے والوں کی اکثریت ہے اس لیے پہاڑی بولنے والے تمام مکاتب فکر (ہندو، مسلم اور سِکھ) کے لوگوں نے 1978 میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پہاڑی ادب کی اشاعت فارسی رسم الخط میں ہوگی۔

ان کے مطابق اب جموں وکشمیر میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے پہاڑی ادیب فارسی رسم الخط میں ہی لکھتے ہیں۔ میاں کریم اللہ قریشی نے فارسی رسم الخط کے استعمال کو پہاڑی زبان کے لیے زہر قاتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس وقت اس رسم الخط کو منظور تو کر لیا لیکن پہاڑی زبان کے کئی الفاظ (جو بولے جاتے ہیں) اس رسم الخط میں موجود نہیں جس سے وہ الفاظ صفحہ قرطاس پر نہیں اتارے جا سکتے اور اگر اس پر غور نہ کیا گیا تو چار سے پانچ دہائیوں بعد لکھنے میں یہ زبان ختم ہوجائے گی۔ اس لئے پہاڑی پر کام کرنے والوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

رسم الخط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رومی شرما کہتی ہیں کہ ’’اس وقت جموں و کشمیر میں پہاڑی لکھنے کے فارسی رسم الخط ہی استعمال ہوتا ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ اس رسم الخط کو پڑھنے والے بہت کم موجود ہیں حالاںکہ پہاڑی بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں اس لیے اہل دانش کو اس پر غور کرکے فارسی رسم الخط کے ساتھ ساتھ ایسی زبان میں لکھا جائے جسے تمام مذاہب کے لوگ پڑھ سکیں تاکہ اس زبان کی ترویج میں آسانی رہے۔‘‘

اب جب کہ پہاڑی زبان اور ادب کا احیا ہورہا ہے اور ایک بڑے خطے میں بولی جاتی ہے تو اس کے بولنے والوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مقامی حکومتوں کو اس زبان کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ کروڑوں لوگوں کی یہ زبان مستند انداز میں فروغ پاسکے اور ہم اپنی پہچان کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے