وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ کے ایکٹ کی منظوری دے دی

وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2020 کی منظوری دے دی۔

کابینہ میں منظور ہونے والے ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر صحافی اور میڈیا پروفیشنل کو پرائیویسی، نجی زندگی، اہل خانہ اور پیشہ وارانہ امور میں مداخلت سے بچاؤ کا حق حاصل ہوگا، نہ صحافی کو اس کے ذرائع بتانے کے لیے مجبور کیا جائے گا اور نہ ہی دباؤ ڈالا جائے گا۔

حکومت صحافی کے ذرائع کو خفیہ رکھنے کے لیے قانونی تحفظ فراہم کرے گی اور پیشہ ورانہ امور میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی۔

ایکٹ کے مطابق کوئی بھی سرکاری و نجی ادارہ یا شخص کسی صحافی کے خلاف سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگا، صحافیوں کی آزادی، غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے حکومت غیرمعمولی اقدامات کرے گی۔

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ2020 میں بتایا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے قوانین کو صحافیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکے گا، حکومت صحافیوں کی جبری گمشدگی اور اغواء سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔

بل کے مطابق کوئی صحافی کسی ایسے مواد کے پھیلاؤ میں ملوث نہیں ہوگا جو جھوٹا اور حقائق کے منافی ہو، دوسروں کے حقوق یا ساکھ متاثر ہونے کی صورت میں اظہار رائے پر مشروط قدغن ہوگی۔

حکومت صحافی کو کسی ادارے، شخص یا اتھارٹی کی طرف سے کردار کشی، تشدد یا استحصال سے تحفظ دے گی۔

بل کے تحت وفاقی حکومت صحافیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں 7 رکنی کمیشن بنائے گی، کمیشن کے 4 ارکان پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) اور ایک رکن نیشنل پریس کلب کا نامزد کردہ ہوگا جبکہ وزارت انسانی حقوق کا ایک نمائندہ بالحاظ عہدہ کمیشن کا رکن ہوگا۔

بل کے مطابق صحافی 14دن کے اندر کمیشن کو شکایت درج کرا سکے گا، کمیشن 14 دن کے اندر معاملے کی تحقیقات کرکے مناسب کارروائی کرے گا، کمیشن کوئی بھی معاملہ متعلقہ مجسٹریٹ کو پیش کرنے کا مجاز ہوگا۔

صحافیوں کی تربیت اور ان کی انشورنس کے لیے جرنلٹس ویلفیئر اسکیم شروع کی جائے گی جس کے تحت ہر میڈیا مالک جامع تحریری حفاظتی پالیسی دینے اور ہر صحافی کی لائف اینڈ ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔

خیال رہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ملکوں میں ہوتا ہے جبکہ حال ہی میں نوشہرو فیروز میں صحافی عزیز میمن کو قتل کردیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے