میری وفات

ایک مرتبہ کسی کالج میں مشاعرہ تھا، منیر نیازی وہاں مدعو تھے، بہت کم لوگوں کو اِس بات کا علم ہے کہ نیازی صاحب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی پائے کے جملہ باز بھی تھے۔ مشاعرے کے بعد شعرا کو لڑکے لڑکیوں نے گھیر لیا اور ان سے آٹو گراف لینے لگے، منیر نیازی کے گرد رش دیکھ کر ایک لڑکی اُن کے پاس آئی اور آٹو گراف کی فرمائش کرتے ہوئے بولی ’’آپ بھی شاعر ہیں؟‘‘ اِس پر نیازی صاحب نے گھور کر لڑکی کو دیکھا لیکن پھر یکدم چہرے پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ سجا کر بولے ’’نئیں، میں قتیل شفائی آں!‘‘ (نہیں، میں قتیل شفائی ہوں)۔

بہت سال پہلے ایسا ’’ملتا جلتا‘‘ واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا تھا، میں یونیورسٹی کی کسی تقریب میں مدعو تھا، ایک خوبصورت سی لڑکی میرے پاس آئی اور بالکل اسی طرح آٹو گراف مانگتے ہوئے بولی کہ کیا آپ کالم نگار ہیں، دل تو کیا کہ اپنا سر پیٹ لوں مگر پھر لڑکی کی شکل دیکھ کر ارادہ ملتوی کر دیا، میرے چہرے کے تاثرات بھانپ کر بولی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں اخبار نہیں پڑھتی، میں اظہار الحق صاحب کا ہر کالم پڑھتی ہوں بلکہ ان کے کالم اخبار سے کاٹ کر اپنی ڈائری میں لگا لیتی ہوں اور پھر ان میں استعمال کیے گئے مشکل الفاظ اور شعروں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ میرا ذخیرہ الفاظ بڑھ سکے۔ میں منیر نیازی کی طرح بذلہ سنج تو نہیں تھا کہ موقع کی مناسبت سے کوئی جملہ لڑھکا دیتا، فقط اتنا کہا کہ بی بی اِس عمر میں اتنا تردد کرنے کی ضرورت نہیں، اظہار صاحب پرانی نسل کے بابے ہیں، وہ آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گے، آپ نسبتاً نوجوان کالم نگاروں کو پڑھا کریں جو آسان اور سیدھی اردو میں لکھتے ہیں۔ اِس پر وہ مہ جبیں خوشی سے چیخ کر بولی ’’بالکل ٹھیک کہا آپ نے، اسی لیے آئی لو وصی شاہ!‘‘

اوپر بیان کیے گئے واقعے کی آڑ میں فدوی نے ایک ہی سانس میں اپنا اور اظہار الحق صاحب کا ذکرکیا ہے، خدا میرا گناہ معاف کرے مگر اللہ کو جان دینی ہے، اظہار صاحب اور مجھ میں بہرحال کچھ باتیں مشترک ہیں، مثلاً وہ کالم نگار ہیں، میں بھی کالم گھسیٹ لیتا ہوں، وہ سول سرونٹ رہے، بندہ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور تیسری بات جس کا علم مجھے اُن کی نئی کتاب ’’میری وفات‘‘ کے ذریعے ہوا جو انہوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے بھیجی ہے، آنجناب کی لکھائی بھی بالکل میری جیسی ہے، بقول یوسفی، جیسے کوئی کاکروچ سیاہی کی شیشی میں ڈبکی لگانے کے بعد کاغذ پر لڑکھڑاتا ہوا چل رہا ہو۔ اپنے جس کالم کے عنوان پر اظہار صاحب نے کتاب کا نام رکھا ہے، وہ انہوں نے اپنی ’’وفات‘‘ پر لکھا ہے مگر میری رائے میں اُن کا ایک کالم ایسا ہے جو اظہار الحق کو امر کرنے کے لیے کافی ہے، اِس کالم کا عنوان ہے ’’اور کوئی دوسرا اِس خواب کو دیکھے تو…‘‘

اظہار صاحب نے یہ کالم اپنی بیٹی کی رخصتی کے موقع پر لکھا اور قلم توڑ دیا۔ جس دن میں نے یہ کالم پڑھا تھا اُس دن میں نے اظہار صاحب کو فون کیا اور کہا کہ دنیا میں جو شخص بھی بیٹی کا باپ ہے اسے چاہئے کہ آپ کا کالم فریم کروا کے اپنی بیٹی کے کمرے میں آویزاں کردے، بیٹی سے محبت کا اِس سے بہترین اظہار ممکن ہی نہیں۔ ذرا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو ’’۔۔فطرت کے ناقابلِ بیان دیدہ زیب مناظر جنہیں صرف دستِ قدرت ہی بنا سکتا ہے اور رشتے جو خون میں شامل ہوتے ہیں، ان سب میں ماں کی شفقت کے بعد صرف بیٹی کا پیار ہے، جس کا کوئی ثانی نہیں، جس کو بیان کرنے کے لیے ساری زبانوں کی ساری لغات ناکافی ہیں اور جس کا احساس صرف وہ نہیں کر سکتا جو اِس نعمت سے محروم ہے۔ سفر سے واپسی پر پہلا گھر جس میں مقدس قدم پڑتے، فاطمہ زہراؓ کا ہوتا۔ نکلتے وقت آخری تشریف آوری وہاں ہوتی۔ آتیں تو جہانوں کے سردار کھڑے ہو جاتے‘‘۔

اظہار الحق جیسی عمدہ نثر لکھتے ہیں ویسی نثر لکھنے والے اب خال خال ہی ملتے ہیں، جو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں اُن میں سر فہرست استاذی عرفان صدیقی ہیں، ایک ایک جملے میں گویا موتی پروتے چلے جاتے ہیں، کوئی لفظ ایسا نہیں جو مشکل ہو اور کوئی جملہ ایسا نہیں جو تخلیقی نہ ہو، اسی طرح اپنے وجاہت مسعود ہیں، خورشید ندیم ہیں، اِن کے علاوہ اظہار صاحب کے ایک کالم نگار دوست بھی عمدہ نثر لکھتے ہیں مگر آسمان پر بیٹھ کر، زمین پر تشریف لانا پسند نہیں فرماتے۔ اِس کے برعکس اظہار صاحب سراپا عجز و محبت ہیں، ملتے ہیں تو یوں گپ لگاتے ہیں جیسے اپنے ہم عمروں میں بیٹھے ہوں، میں اکثر اُن سے لبرٹی لے جاتا ہوں اور اُن کے سیاسی کالموں پر اختلافی نوٹ بھیجتا رہتا ہوں، جواب میں مسکرا کر کہتے ہیں، اچھا اگر آپ کہہ رہے ہیں تو پھر مجھے سوچنا پڑے گا۔

اظہار الحق کالم نگاروں کی اُس فہرست میں شامل ہیں جن کا کالم میں صبح اٹھ کر ضرور پڑھتا ہوں، جس روز وہ سیاست پر نہیں لکھتے اُس روز اُن سے بہتر کالم شاید ہی کسی کا ہوتا ہو، میری رائے میں اظہار صاحب کو سیاسی کالم کم اور سماجی موضوعات پر زیادہ لکھنا چاہئے۔ اسی طرح اپنے کالموں میں وہ فارسی کے اشعار کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور ان کا مطلب بھی نہیں بتاتے، اب اگر آپ نے پرانے وقتوں میں ایم اے عربی کر رکھا ہے اور گلستانِ سعدی حفظ کی ہوئی ہے تو حضور اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے تمام قاری بھی ایسے ہی عالم، فاضل ہیں۔ اظہار الحق کی نئی کتاب کی پشت پر اُن درس گاہوں کے نام درج ہیں جہاں سے آپ نے تعلیم حاصل کی جن میں سر فہرست ہے ’’جدِ امجد‘‘ اور ’’والد گرامی‘‘۔ کیا کہنے۔ اب ایسے شاعر اور لکھاری کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں، اظہار صاحب کا تعلق اُس پرانی نسل سے ہے جس کے چند دانے ہی اب ہمارے درمیان رہ گئے ہیں، اِن کی قدر کرنی چاہئے، اظہار صاحب نے تو اپنی وفات پر کالم لکھ مارا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اُن کی موت سے پیدا شدہ خلا پُر ہو جائے گا، میرا مگر یہ کہنا ہے کہ جب اِس نسل کے لوگ ہم میں نہیں رہیں گے تو یہ دھرتی کیسی بانجھ لگے گی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے