جا چھوڑا تجھے حافظ ِ قرآن سمجھ کر!

سب متعلقہ حضرات نوٹ فرما لیں کہ اگر آئندہ غسل کے دوران جب میں نے آنکھوں پر صابن ملی ہو، نلکے سے پانی آنا بند ہو گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ اگر کسی کو ملک کی پروا ہو تو وہ میری ان باتوں پر غور کرے کیونکہ میں اس سے پہلے بھی ایسی کئی وارننگز دے چکا ہوں لیکن کسی نے ان پر کان نہیں دھرا۔ میں نے بتایا تھا کہ سائیکل چلاتے ہوئے میری دھوتی اکثر چین میں پھنس جاتی ہے، اگر آئندہ ایسا ہوا تو ملک کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ دھوپ میں ایک سایہ سا میرے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اسے منع کریں ورنہ ملک ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ جب ہم لوگ آنکھ بند کرتے ہیں تو ہمیں نظر آنا بند ہو جاتا ہے، کیا ایسی صورت میں ملک قائم رہ سکتا ہے؟ بالکل نہیں، ہرگز نہیں!۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ میرے اور میرے جیسے دوسرے دانشوروں کی ان وارننگز پر کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ الٹا وہ ہمیں کوسنے لگتے ہیں کہ ہم مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر ایکسرے میں ڈاکٹر کو بازو کا فریکچر نظر آ رہا ہو اور وہ مریض سے حقیقتِ حال بیان کرے تو کیا ایسی صورت میں وہ ڈاکٹر مایوسی پھیلا رہا ہوتا ہے؟ میں نے ایک کج بحث سے یہ بات کہی تو اس مردود نے جواب میں زہریلی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، اسپتال میں روزانہ سینکڑوں فریکچر کے مریض آتے ہیں تو کیا ان کا فریکچر کبھی ٹھیک نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے لیکن اگر ڈاکٹر اس کا علاج کرنے کے بجائے یہ کہے کہ تم اب ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے ہو، گھر جاؤ اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کا انتظار کرو، تو کیا ایسا ڈاکٹر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے یا وہ مریض کو مایوسی کے ٹیکوں سے ادھ موا کرنا چاہ رہا ہوتا ہے!“ میں نے اس فضول سی بات کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے مریضانہ حب الوطنی کے شکار اس شخص سے یہ بھی کہا کہ تم ملک ٹوٹنے کی فکر نہ کرو۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو، ملک بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں مگر یہ واہیات شخص کج بحثی پر اُترا ہوا تھا۔ بولا ملک اس وقت ٹوٹتے ہیں جب خدانخواستہ لوگ تمہارے جیسے کسی دانشور کی بےبنیاد باتوں پر یقین کرنے لگیں اگر تم لوگوں کو واقعی ملک ٹوٹنے کی فکر ہے تو میدان میں آئو، اِس کی بنیادیں مزید مضبوط کرو۔

دراصل ہماری قوم ایک جذباتی قوم ہے، ان سے کوئی سچی بات سنی ہی نہیں جاتی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا ملک ٹوٹنے کی بات صرف دانشور کرتے ہیں جو تم انہیں مایوسی پھیلانے کا مجرم گردانتے ہو۔ روزانہ کئی کالموں، مضمونوں اور خبروں کی سرخی ہی یہی ہوتی ہے کہ اگر یہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ سیاست دان کہتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ سو اگر میں کہتا ہوں کہ اگر کل بھی میری شلوار میں ”نالا“ نہ ڈالا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا تو کون سی کوئی غلط بات کرتا ہوں؟ ایک خوش فہم صاحب سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی، فرمانے لگے۔ ”انڈیا کے کئی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کئی تحریکیں تو پُر تشدد ہیں۔ کشمیر میں برس ہا برس سے بھارت کی آٹھ لاکھ فوج بیٹھی پُرامن کشمیریوں کی آواز دبانے کی ہرممکن کوشش کرتی چلی آ رہی ہے لیکن تحریک ہے کہ جاری و ساری ہے لیکن بھارت میں چند ایک لوگ ہیں جو اس صورتحال کا مکمل ادراک ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں اور یوں اس ملک کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا!“ میں نے اس شخص کی اس جاہلانہ سی بات کا کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ البتہ اس سے پوچھا ”کیا تم چاہتے ہو کہ پاکستان کو درپیش خطرات سے عوام کو آگاہ نہ کیا جائے‘‘؟

بولا ’’کون گدھا یہ بات سوچ بھی سکتا ہے لیکن خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کریں“۔ اس نے ایک فضول سی بات اور بھی کہی اور وہ یہ کہ ”اگر خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو تم لوگوں کی سب بادشاہیاں ختم ہو جائیں گی۔ لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے دوبارہ ہزاروں کی نوکریوں کے لئے ترسیں گے اور ہزاروں والے سینکڑوں روپے کی نوکری کے لئے لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ یہ کھیت کھلیان اور فیکٹریاں بھی دوبارہ اکثریت کے پاس ہوں گی۔ تم ایک دفعہ پھر ساری عمر مہاجن کا نسل در نسل چلنے والا سود ادا کرتے دکھائی دو گے۔ تمہیں شودروں کی طرح اوک میں پانی پینا پڑے گا۔ اگر تم لوگوں کو اپنی بادشاہیاں خطرے میں پڑنے کا ڈر نہ ہوتا تو کب کے بھارت چلے گئے ہوتے لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والوں نے کبھی پاکستان چھوڑنے کا سوچا تک نہیں۔ ایک آدھ جو گیا، وہ بھی اپنی بےقدری دیکھ کر واپس آگیا جبکہ قیامِ پاکستان سے اب تک لاکھوں مسلمانوں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا کے لئے ناشکری نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کو ناشکری پسند نہیں ہے!“

میں نے اس احمق شخص کی باتوں کا جواب دینا تھا لیکن وہ اپنے آخری جملے میں مجھے خدا کا واسطہ دے چکا تھا، چنانچہ مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں خاموش ہو گیا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے